ہاتھوں میں ڈنڈا، سر پر اونچے شملے والی خاکی پگڑی، بیلٹ کے ساتھ لٹکتی پانی کی بوتل، گھٹنوں تک اونچی پتلون پہنے کوتوال اندرون لاہور کے مصروف مقامات پر گشت کرتے دکھائی دیے تو بہت سے افراد اس دلچسپ منظر سے محظوظ ہوئے۔
دیکھنے والوں میں سے کچھ نے اسے ماضی کی یاد کے طور پر دیکھا، کہیں یہ تیزرفتار شہری زندگی میں ایک منفرد تبدیلی ٹھہری تو کچھ ایسے صارفین بھی تھے جو اسے برطانوی راج کی ’ظالمانہ یادگار‘ قرار دے کر ناخوش دکھائی دیے۔
نزہت ایس صدیقی نامی ٹوئٹر یوزر نے کوتوالوں کی تعیناتی کو دلچسپ جانا تو لکھا کہ ’اندرون لاہور آہستہ آہستہ اصل کی جانب لوٹ رہا ہے۔‘
اندرون لاہور میں کوتوالوں کی واپسی کو جہاں منفرد قرار دے کر اس کی تعریف کی گئی وہیں کچھ افراد اسے ’برطانوی راج کی ظالمانہ یاد‘ تازہ کرنا کہہ کر اس سے ناخوش دکھائی دیے۔
ظفر حسین نامی ایک صارف نے لکھا ’خدا کا خوف کرو یار، زندہ بھی کیا تو کیا؟ برطانوی دور کی کوتوالی وردی ظلم، بربریت اورعوام دشمنی کی علامت ہے۔‘
کوتوال کیا ہے؟
اردو لغات کے مطابق محافظ کو کوتوال کہا جاتا ہے۔ یہ محافظ کہیں شہر کے بڑے تھانے کا افسر اور کہیں کسی قلعے یا شہر میں امن و امان کا ذمہ دار ہوا کرتا تھا۔
محافظ یا محافظوں کے افسر کے طور پر استعمال ہونے والی یہ اصطلاح اردو شاعری اور ادب میں بھی خاصی معروف ہے۔
’الٹے چور کوتوال کو ڈانٹے‘ اور ’سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا‘ جیسے جملے بھی روزمرہ گفتگو کا حصہ رہتے ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے والڈ سٹی کے پی آر او زبیر احمد نے بتایا کہ ’والڈ سٹی اتھارٹی اندرون شہر کو بحال کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں کی ثقافت کی بحالی کے لیے بھی اقدامات کر رہی ہے۔ پہلے یہاں مونومنٹس، شاہی حمام، شاہی گزرگاہ اور مسجد وزیر خان تک گلیوں اور عمارتوں کی تزئین و آرائش کی گئی، اب یہاں پر پر اس وقت کی ثقافت کو اجاگر کیا جا رہا ہے۔‘
ترجمان کے مطابق ’پرانے وقتوں میں یہاں کوتوال ہوتے تھے جو پہرہ دیتے تھے ان کا ایک خاص لباس ہوتا تھا۔ ہم نے ماضی سے متعلق آگاہی دینے کے لیے یہاں والڈ سٹی کے ملازمین کو اسی یونیفارم میں تعینات کیا ہے اور یہ کسی مخصوص وقت کے لیے نہیں ہیں بلکہ یہ یہیں پر فرائض انجام دیں گے جس کے لیے انہیں تنخواہ بھی دی جا رہی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم نے یہاں میوزکل ڈے کا بھی اہتمام کیا اور پرانے زمانے میں جس قسم کی موسیقی سنی جاتی تھی اور جو ساز استعمال ہوتے تھے ہارمونیم، طبلے، اور اس وقت کے مشہور گیت، ان کے ذریعے ہم اندرون لاہور کی ثقافت کو ایڈریس کر رہے ہیں۔‘
’ان تمام سرگرمیوں کا مقصد لاہور آنے اور یہاں رہنے والوں کو اندرون لاہور کے اصل کلچر سے واقف کرانا ہے۔‘