’جب میرے علم میں آیا کہ لاہور کے لوگ میرے پردادا کے لیے روزانہ دعائیں کرتے ہیں، اس وقت تک مجھے صحت عامہ اور خواتین کی تعلیم کے لیے ان کی خدمات کا اندازہ نہیں تھا، جن لوگوں نے مجھے اپنے ورثے کو جاننے میں مدد کی تاکہ میں اسے جاری رکھ سکوں، ان سب کا شکریہ۔‘
یہ الفاظ جنوری 2021 میں ورمونٹ سے امریکی سینیٹ کی ممبر بننے والی کیشا رام کے ہیں جو انہوں نے لاہور کے امریکی قونصلیٹ جنرل کے ایک ٹویٹ کے جواب میں اپنے ٹوئٹر پر لکھے۔
امریکی قونصل جنرل کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کیشا رام اور ان کے پردادا کی تصاویر کے ساتھ یہ بتایا گیا تھا کہ جدید لاہور کے بانی سر گنگا رام کی پڑپوتی ورمونٹ سے سینیٹ کی ممبر منتخب ہوئی ہیں۔ انہوں نے چھ جنوری کو حلف لیتے ہوئے شلوار قمیض زیب تن کر رکھی تھی۔
مزید پڑھیں
-
’شاہی قلعے میں صدیوں کی منظر کشی‘Node ID: 420626
-
’ہیرو کی طرح کمایا،درویش کی طرح لٹایا‘Node ID: 425286
-
یہ اٹلی ہے یا لاہور؟ گلی سرجن سنگھ کی شہرتNode ID: 547821
نو منتخب امریکی سینیٹر نے اپنے پردادا کے جس ورثے کا فخریہ اظہار کیا، امریکی قونصلیٹ نے جسے جدید لاہور کا بانی لکھا۔ ہماری تاریخ اور اجتماعی یادداشت میں ان کا نام اور کارنامے کبھی لائق توجہ اور تحسین نہیں بن سکے۔
سر گنگا رام اپنے کارناموں اور دنیاوی بھلائی کے غیر معمولی کاموں کے باعث ایک افسانوی کردار لگتے ہیں۔ آج کے دور میں یہ تصور باعث حیرت ہے کہ ایک شخص لاہور ایسے شہر کو جدید روپ میں تعمیر کر دے۔ ہزاروں ایکڑ بنجر اراضی کو انجینئرنگ کے کمالات سے سرسبز و شاداب زمین میں ڈھال دے۔ محض عمارتیں کھڑی نہ کرے بلکہ تہذیب کی آبیاری کے لیے لاہور میں تعلیمی اداروں کی نیو رکھے۔
سینیٹر کیشا رام نے سر گنگا رام کے حوالے سے اردو نیوز سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ گنگا رام کے خاندان سے ہونا ان کے لیے ناقابل بیان فخر کا باعث ہے۔
’میں نے ان کی لاہور کے لوگوں کے لیے بلا تفریق جنس، مذہب، نسل اور رنگ کے صحت عامہ اور مقامی لوگوں کو بااختیار بنانے کی کاوشوں اور سوچ کا مطالعہ کیا ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’میرے لیے امریکہ میں بھی عوامی خدمت کے کاموں میں دلچسپی کی وجہ گنگارام کے خون کا میری رگوں میں ہونا ہے۔‘
کیشا رام کہتی ہے کہ امریکا سمیت تمام اقوام ان سے بے لوث سخاوت اور فرض نبھانے جیسی صفات کو سیکھ سکتی ہیں۔ ’میں نے یہاں امریکہ میں لوگوں کو ایک صدی قبل سر گنگا رام کے کارناموں اور ان کے چھوڑے ہوئے ورثے کے بارے میں بتایا تو وہ لوگ حیران رہ گئے۔‘
13 اپریل 1851 کو پنجاب میں بیساکھی کا جشن برپا تھا۔ لاہور سے چالیس میل پرے مانگٹا نوالہ کے پولیس انسپکٹر دولت رام کے گھر نومولود گنگا رام کی پیدائش کی خوشی منائی جا رہی تھی۔
یہ خاندان مظفر نگر اتر پردیش سے پنجاب آ کر بس گیا تھا۔ ایک ڈکیت گروہ کی گرفتاری میں کردار ادا کرنے پر مالک رام کے خاندان کے لیے مانگٹا نوالہ میں مزید رکنا جان گنوانے کے مترادف تھا۔ انہوں نے اپنے خاندان سمیت امرتسر کی راہ لی۔ پولیس کی نوکری جاتی رہی تو گزر بسر کے لیے خطاطی کا پیشہ اپنایا۔
گنگارام کو تعلیم کے لیے ایک پرائیویٹ سکول میں ڈال دیا گیا۔غیر معمولی فطانت اور لگاؤ کے باوجود میٹرک میں فیل ہو گئے۔ اگلے برس اعزازی نمبروں کے باعث سکالرشپ کی حق دار قرار دیے گئے۔
ان کے لاہور کے ساتھ رومانس کا آغاز گورنمنٹ کالج میں داخلہ لینے سے ہوا۔ ابتدائی برسوں میں گورنمنٹ کالج سکھ سلطنت کے ڈوگرہ وزیراعظم دیہان سنگھ کی حویلی میں قائم تھا۔ ٹکسالی گیٹ کے اندر گورنمنٹ سکول سے گورنمنٹ کالج تک کا سفر سر لائٹنر کی کاوشوں سے ممکن ہوا۔
پنجاب کے طبقہ اشرافیہ کے بچوں کے ہم جماعت عام سے خاندان کے نوجوان کو بنیادی آسائشیں تک حاصل نہ تھیں۔ریاضی کے مضمون میں غیر معمولی اشتیاق اور استبداد کے باعث انہیں پروفیسر لنڈسے کی خصوصی توجہ اور عنایت ملی۔
بھارتی محقق اور تاریخ دان ڈاکٹر ایف ایم بھٹی کی تصنیف ’سر گنگا رام، اے مین آف آل سیزنز‘ کے مطابق اخراجات میں ہاتھ تنگ ہونے کی وجہ سے کالج کے ہاسٹل کے بجائے انہیں سوتر منڈی میں رہائش اختیار کرنا پڑی۔اسی سوتر منڈی کے قریب بعد میں گنگا رام ہسپتال تعمیر ہوا۔
جدت پسند طبیعت کی وجہ سے 18 سو 71 میں تھامسن انجینئرنگ کالج روڑ کی میں داخلہ لیا۔برطانوی ہند میں یہ ادارہ انجینئرنگ کی اعلیٰ مہارتوں کا منبع مانا جاتا تھا۔
تعلیم مکمل ہوئی تو لاہور میں اسسٹنٹ انجینئر تعینات ہوئے۔ تھوڑے عرصے بعد ان کے ذمے ڈیرہ غازی خان میں حکومتی عمارتوں کی تعیر کا کام لگا۔
کرنل فورٹ سنڈیمن ان دنوں ڈی جی خان کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ بلوچستان کے ضلع ژوب کا نام کسی دور میں اس کے نام پر فورٹ سنڈیمن ہوا کرتا تھا۔گنگا رام کی تعمیرات میں تخلیقی توانائیاں انہیں بھا گئیں۔ اسی وجہ سے وہ ان کے لیے بریڈفورڈ میں انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم کا وسیلہ ثابت ہوئے۔ اعلیٰ اعزازات کے ساتھ وہ ٹاؤن پلاننگ کے ابھرتے ہوئے جدید تصورات اور تکنیکی مہارتوں کے ساتھ وطن لوٹے۔ ان کی جائے تعیناتی ایک بار پھر لاہور قرار پائی۔
اس دور کا اندرون شہر نکاسی آب اور سیوریج کے کسی مربوط نظام کے بغیر تھا۔ اندرون کی تنگ گلیوں میں باسیوں کے مخصوص انداز معاشرت، تانگوں مویشیوں اور پالتو جانوروں کی بہتات تھی۔
شہریوں کے لیے وبائی امراض پھوٹنے کا خطرہ اور خدشہ صحت عامہ کا بڑا مسئلہ بنا رہتا تھا۔ گنگا رام نے اندرونی شہر کے نکاسی کے نظام کو نئے خطوط پر استوار کر دیا، اب ان کی نظریں بیرون شہر کی نوتعمیر شدہ مال روڈ کی جانب اٹھ گئیں۔
لاہور کی ٹولنٹن مارکیٹ سے میاں میر چھاؤنی تک 1851 میں کرنل نیپئر کی نگرانی میں بننے والی مال روڈ پر اس وقت خال خال ہی عمارتیں تعمیر ہوئی تھیں۔
اس کے اطراف لارنس گارڈن ،منٹگمری ہال ، گورنمنٹ ہاؤس، اور مہاراجہ پٹیالہ کی ملکیتی دو منزلہ عمارت کے سوا زمین کے اکثر قطعات خالی تھے۔
لاہور ان دنوں نئے روپ کی کروٹیں لے رہا ۔گنگارام کو کنہیا لال ہندی اور بھائی رام سنگھ کا ساتھ میسر آیا۔ ان دونوں کا تعلق بھی سیول انجینئرنگ اور پلاننگ سے تھا۔ دونوں دل کی دولت کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم سے بھی مالا مال تھے۔ اس تثلیث نے لاہور کے نئے روپ کے خاکوں میں جدت اور جمال کے رنگ بھرنا شروع کیے۔
چند سال کی محنت شاقہ سے مال روڑ کا بے آب و گیاہ دامن فن تعمیر کی جدتوں کو چھوتی عمارتوں سے بھر گیا۔
ٹاؤن ہال سے لے کر نہر تک جنرل پوسٹ آفس، عجائب گھر ، ایچی سن کالج ، میو سکول آف آرٹس (نیشنل کالج آف آرٹس ) لیڈی میکلیگن گرلز ہائی سکول، گورنمنٹ کالج کا کمسٹری ڈیپارٹمنٹ اور لاہور ہائی کورٹ کی پرشکوہ عمارتیں وجود میں آئیں۔
مال روڈ کے ان شاہکاروں کا تقابل بلاشبہ فرانس کے شانزے لیزے سے کیا جا سکتا ہے۔جہاں صدیوں قدیم عمارتیں تاریخی ورثے کی حیثیت رکھتی ہیں۔
لاہور کے چہرے کو تمدن اور ثقافت کی تابناکی عطا کرنے کے بعد انہوں نے لائلپور کو بسانے کی پلاننگ میں حصہ لیا۔ ڈاکٹر ایف ایم بھٹی کی تحقیق کے مطابق ایک سو ایکڑ میں بننے والے اس شہر کے لیے گنگارام نے یونین جیک کی طرز پر ڈیزائن تیار کیا۔
آٹھ بازار اور درمیان میں کلاک ٹاور کا تصور ان کے زرخیز ذہن کی پیداوار ہے۔ پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر جیمز لائل کے نام پر بنے اس شہر کا سنگ بنیاد انھوں نے 1896 میں رکھا۔ لاہور ہی نہیں بلکہ فیصل آباد کی پیدائش و پرورش میں بھی سر گنگا رام کی مہارت اور محنت پوشیدہ ہے۔
برسوں لاہور شہر میں رہنے کے باوجود گنگا رام کے اندر کا دہقان انہیں شہر کی رونقوں سے دور کھلی زمین کے سینے پر اناج گھر آباد کرنے پر اکساتا رہا۔ چک 591 م گوگیرا برانچ ہزاروں ایکڑ پر پھیلا ہوا بنجر اور بے آباد علاقہ تھا، جب گنگا رام نے انگریز سرکار سے یہ زمین خرید کر آباد کی تب اسے گنگا پور کہا جانے لگا۔ یہ علاقہ نہر کی سطح سے بلند ہونے کی وجہ سے پانی کا بلندی کی طرف لے جانا ممکن نہ تھا۔
سر گنگا رام نے ایک بہت بڑی موٹر منگوائی اور اس کے ذریعے پانی کو گنگاپور لانے کا فیصلہ کیا۔
سیاح اور مصنف حسن معراج اپنی کتاب ’ریل کی سیٹی‘ میں اسی گنگاپور تک ریلوے ٹریک کی تعمیر کی حیرت انگیز داستان بیان کرتے ہیں۔ لاہور سے لائی گئی یہ موٹر منڈی بچیانہ تک تو آ سکتی تھی مگر اسے آگے لانا ممکن نہ تھا۔ تین کلومیٹر کے اس حصے کو پاٹنے کے لیے ایک پٹری بچھائی گئی۔18 سو 98 میں پٹری مکمل ہوئی تو اس پر چلنے والی گاڑیاں ریل سے مختلف تھیں۔عام ٹرین کی طرح اس گاڑی کو کوئلہ پھانکتا انجن نہیں بلکہ سانس لیتے گھوڑے کھینچتے تھے۔
بنجر زمین کو جب پانی نصیب ہوا تو مہینوں میں اناج کے سنہری خوشے جھلکنے لگے۔ ان کی کوششوں سے 90 ہزار ایکڑ اراضی سیراب ہوئی جو اس وقت کی سب سے بڑی ذاتی زرعی راضی تھی۔
پٹری کیا بنی اس علاقےکی کایا پلٹ گئی،گھوڑا ٹرین کے ذریعے ملازم، کسان اور طلبا پندرہ منٹ میںقریب ریلوے سٹیشن پہنچتے۔
تقسیم ہند کے بعد بھی عشروں تک یہ انوکھی ٹرین رواں دواں رہی۔80 کی دہائی میں پاکستان ٹیلی ویژن نے ’انوکھی سواری‘ کے نام سے اس پر 20 منٹ کا خصوصی دستاویزی پروگرام بنایا تھا۔
2010 میں علاقے کے باسیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اس ٹرین کو بحال کر دیا مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہ چل سکا۔ گنگا رام کی بچھائی پٹری آج بھی جوں کی توں ہے۔
سنگ و خشت سے ایک جہاں پیدا کرنے اور زمین کے سینے کو ہرے بھرے کھیتوں سے آباد کرنے کے بعد انہوں نے خلق خدا کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ایک لاکھ 30 ہزار روپے کی لاگت سے گنگا رام ہسپتال قائم کیا۔ ایک صدی سے زیادہ وقت بیت گیا مگر سر گنگا رام ہسپتال کی مسیحائی میں سر مو فرق نہیں آیا۔
تقسیم ہند کے بعد ان کی اولاد ہندوستان ہجرت کر گئی جہاں دلی میں بھی سر گنگا رام کے نام سے ہسپتال بنایا گیا۔ ایک ٹرسٹ کے ذریعے ان کا خاندان آج تک ہسپتال کے انتظامی اور مالیاتی معاملات کو سنبھالے ہوئے ہے۔