سکندر مرزا نے ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر لگایا، پھر ایوب خان نے ہی سکندر مرزا سے استعفیٰ لیا (فوٹو:گیٹی امیجز)
پاکستان میں سیاست کا قید اور سزاؤں سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ سربراہان حکومت کو قید یا جلا وطن یا قتل کیا جاتا رہا۔ یہ سلسلہ 1950 کے عشرے میں ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل سے شروع ہوا، سات سال بعد ملک کے پہلے صدر سکندر مرزا کو جلا وطن کیا گیا۔
قیام پاکستان کے بعد پہلا عشرہ فیصلہ کن تھا، جب نئے ملک کے سیاسی و معاشی نظام اور خارجہ پالیسی کی بنیادیں رکھی جا رہی تھیں۔ سیاست دانوں، صوبوں کے اختیارات، سول بیورو کریسی، سول اور ملٹری تعلقات کے حوالے سے جنگ کا آغاز ہوا۔
ہر طبقہ اپنی بالادستی اور اپنا حصہ حاصل کرنے کے لیے کوشاں تھا۔ نئے ملک میں سول بیوروکریسی خود ایک طبقہ اور قوت تھی۔
لیاقت علی خان برطانوی وائسرائے کا طرز حکمرانی چاہتے تھے جس میں سول بیوروکریسی، پولیس اور فوج کے درمیان ہم آہنگی ہو۔ سیاست دانوں کو ثانوی حیثیت حاصل ہو۔ اس مقصد کے لیے انہیں سیکرٹری دفاع سکندر مرزا پر انحصار کرنا پڑا۔
یہاں سے سکندر مرزا کا کردار شروع ہوا جو انہیں صدارت کے عہدے تک لے گیا اور بعد میں جلاوطنی تک بھی۔
’سہروردی کی یاداشتیں‘ اور دیگر تاریخی کتابوں کے مطابق سکندر مرزا کا تعلق سراج الدولہ کے مقابلے میں انگریزوں کا ساتھ دینے والے میر جعفر کے خاندان سے تھا۔
برٹش آرمی میں شمولیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے سکندر مرزا تقسیم ہند کے وقت محکمہ دفاع میں جوائنٹ سیکرٹری تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انہیں سیکرٹری دفاع مقرر کیا گیا۔
جب وزیراعظم لیاقت علی خان پاکستانی فوج کا سربراہ انگریز کے بجائے پاکستانی مقرر کرنے جا رہے تھے تو سکندر مرزا نے تین سینئر افسران کو بائی پاس کر کے جونیئر ترین آفیسر ایوب خان کو آرمی چیف مقرر کرایا۔
مورخین کے مطابق ایوب خان کا نام وزارت دفاع کی بھیجی لسٹ میں شامل نہ تھا۔
جگتو فرنٹ کی کابینہ برطرف کرنے کے بعد گورنر جنرل غلام محمد نے بنگالیوں سے سختی سے نمٹنا چاہا لہٰذا مشرقی پاکستان میں گورنر راج نافذ کرکے سکندر مرزا کو گورنر مقرر کیا۔ یہاں سے وہ انتظامی یا بیوروکریسی امور سے نکل کر مکمل طور پر سیاست میں آ گئے۔
عہدہ سنبھالتے ہی انہوں نے 1051 افراد کو گرفتار کیا جن سے 33 اسمبلی اراکین اور دو ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر شامل تھے۔
1954 سے 1955 تک وہ وزیر داخلہ رہے۔ گورنر جنرل غلام محمد فالج کے بیرون ملک علاج کے لیے دو ماہ کی چھٹی پر چلے گئے، ایسے میں سکندر مرزا کو میدان مل گیا اور وہ قائم مقام گورنر جنرل ہو گئے۔ جلد ہی وہ اس منصب پر مستقل ہو گئے۔
صدر مرزا اب کنگ میکر ہو گئے۔ انہوں نے ایک بیوروکریٹ چوہدری محمد علی کو وزیراعظم مقرر کیا۔ مارچ 1956 میں نئے آئین کے نفاذ کے ساتھ ملک کے سربراہ کا عہدہ گورنر جنرل کے بجائے صدر ہو گیا تھا۔ آئین ساز اسمبلی نے سکندر مرزا کو متفقہ طور پر پاکستان کا پہلا صدر منتخب کیا۔
نیا آئین چونکہ پارلیمانی طرز کا تھا جس میں اختیارات وزیراعظم کے پاس تھے اور صدر کا عہدہ محض رسمی تھا۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے انہوں نے ریپبلیکن پارٹی بنوائی اور خود اس کے نائب صدر بن گئے۔ اسی ماہ میں چوہدری محمد علی سے استعفٰی لیا گیا اور سہروردی نے ریپبلیکن پارٹی اور عوامی لیگ کی مخلوط حکومت بنائی۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی اور آخری مرتبہ صدر اور وزیراعظم دونوں بنگالی تھے لیکن دونوں کے ون یونٹ اور طرز حکمرانی پر خیالات متصادم تھے۔
صدر سکندر مرزا کی حکومتی امور میں غیر آئینی مداخلت نے وزیراعظم سہروردی کی حکومت کا چلنا دوبھر کر دیا۔ صدر مرزا نے بالآخر ان سے استعفٰی لے کر فیروز خان نون کو وزیراعظم نامزد کیا جن کو مسلم لیگ اور عوامی لیگ کی حمایت حاصل تھی۔
فوجی اور بیوروکریٹک پس منظر رکھنے والے سکندر مرزا میں پارلیمانی جذبہ اور جمہوری قدریں خال خال تھیں۔ ان کے مطابق جمہوریت کی عدم تربیت اور شرح خواندگی کی کمی کی وجہ سے پاکستان میں جمہوری ادارے چل نہیں سکتے۔
قدرت اللہ شہاب صدر کے سیکرٹری بھی رہے، اپنی سوانح حیات شہاب نامہ میں لکھتے ہیں کہ صدر سکندر مرزا نے آئین کو چیتھڑا کہا تھا۔ یہی الفاظ بعد میں جنرل ضیا الحق نے بھی ادا کیے۔
کنٹرولڈ جمہوریت کے خواہان سکندر مرزا کے پاس سیاست دانوں کے بارے میں اچھے ریمارکس نہیں تھے۔ انہیں ’بدمعاش اور گڑبڑ کرنے والے‘ کہتے تھے اور سول بیورو کریسی کے لیے زیادہ اختیارات چاہتے تھے۔
سکندر مرزا ون یونٹ کے سخت حامی تھے۔
واقعات بتاتے ہیں کہ صدر سکندر مرزا ملک کی سیاست پر حاوی ہونا چاہتے تھے۔ ملک کا سربراہ ہونے کے ناطے وہ اقتداری سیاست میں موثر تھے اور کنگ میکر کا کردار ادا کرنے لگے تھے۔
انہوں نے سیاست دانوں کی کمزوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور انہیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا۔ قوم پرستوں کو آسرا دیا کہ وہ ساتھ دیں تو ون یونٹ توڑ دیا جائے گا۔
مسلم لیگ سے نمٹنے کے لیے انہوں نے ریپبلکن پارٹی بنائی۔ غیر آئینی مداخلت کا یہ عالم تھا کہ دو سال کے مختصر عرصے میں چار وزرائے اعظم تبدیل ہوئے۔ مورخین سکندر مرزا کو ملک میں سیاسی عدم استحکام کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
آئی آئی چندریگر اور خان عبدالقیوم خان کی جانب سے مسلم لیگ کی ازسرنو تنظیم اور بعض پنجابی گروپوں کےعوامی لیگ سے اتحاد سے سکندر مرزا خوف زدہ تھے۔ انہوں نے سیاست دانوں سے نمٹنے کے لیے فوج کا سہارا لیا۔
سات اکتوبر 1958 کو انہوں نے آئین منسوخ کر کے مرکزی اور صوبائی اسمبلیاں توڑ دیں اور ملک میں مارشل لا نافذ کر کے جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔
ان کا خیال تھا کہ اب وہ مختار کل ہیں جبکہ حالات بدل چکے تھے۔ ایوب خان کو پتا تھا کہ حکومت فوج کے ذریعے چلائی جا رہی ہے اور وہ آرمی چیف ہیں۔
اختیار اپنے پاس رکھنے کے لیے سکندر مرزا نے بیوروکریٹس اور ٹیکنوکریٹس پر مشتمل نئی انتظامی کابینہ بنائی لیکن یہ سعی ناتمام رہی۔ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ایوب خان نے اس منصوبے کی مخالفت کی۔ کل تک سکندر مرزا سیاست دانوں کے خلاف فوج کو استعمال کرنا چاہ رہے تھے، اب ان کا اسی ادارے سے تصادم ہو گیا تھا۔
بعض مورخین کا خیال ہے کہ اس تصادم کی وجہ سے یحییٰ خان نے ان کی میت پاکستان میں دفنانے سے منع کیا۔
20 روز بعد جنرل ایوب خان نے ایک فوجی یونٹ ایوان صدر بھیج کر سکندر مرزا سے بندوق کی نوک پر استعفٰی لے لیا اور خود صدر بن گئے۔ پانچ روز بعد معزول صدر کو 2 نومبر 1958 کو لندن روانہ کر دیا گیا۔
لندن میں سابق صدر نے آخری ایام بہت تنگدستی میں گزارے۔ انہیں معمولی پینشن ملتی تھی، جو گھریلو اخراجات کے لیے ناکافی تھی۔ اخراجات پورے کرنے کے لیے انہیں ایک ہوٹل میں ملازمت کرنا پڑی۔ آخری ایام لندن کے ایک ہوٹل کے کمرے میں گزارے جہاں وہ 15 نومبر 1969 کو انتقال کر گئے۔
پاکستان حکومت کے انکار کے بعد شہنشاہ ایران کے خصوصی طیارے کے ذریعے ان کی میت ایران لے جائی گئی جہاں انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا۔
پاکستان میں جلاوطنی کی لمبی تاریخ ہے۔ جنرل ضیا الحق نے الوالفقار تنظیم کے ہائی جیکروں کے مطالبے پر مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے 55 سیاسی کارکنوں کو ان کی مرضی کے خلاف جلاوطن کر کے دمشق بھیجا۔
جنرل ضیا کے ہی دور میں نامور شاعر فیض احمد فیض، پیپلز پارٹی اور بائیں بازو کے بعض کارکنوں کو بھی ملک چھوڑنا پڑا۔
ضیاالحق اور مشرف دور میں بے نظیر بھٹو طویل عرصہ جلاوطن رہیں۔ ان آمروں نے ان کا ملک میں رہنا محال کر دیا تھا۔
سکندر مرزا کی جلاوطنی کے نصف صدی بعد جنرل مشرف نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو جلاوطن کیا جو تقریباً 10 سال جلاوطن رہے۔
اس واقعے کے تقریباً آٹھ سال بعد مقبول رہنما اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں جلسے کے بعد قتل کر دیا گیا۔
یہ امر قابل غورہے کہ زیادہ تر جلا وطنیاں آمریتوں کے دور میں ہوئیں۔