پاکستان کے صوبہ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں ایک ٹک ٹاکر لڑکی کے ساتھ ہراسگی کے واقعے کے بعد پولیس نے ملزمان کی شناخت کے لیے عوام سے مدد کی اپیل کی ہے۔
لاہور پولیس کے سربراہ غلام محمود ڈوگر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم ان تمام افراد تک پہنچنے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں جنہوں نے 14 اگست کی شام گریٹر اقبال پارک میں ایک خاتون کو زدوکوب کیا اور اس کو جنسی طور پر ہراساں کرتے رہے۔‘
’عوام سے درخواست کی جاتی ہے کہ جو ویڈیو کلپ وائرل ہوئے ہیں ان میں نظر آنے والے افراد کی نشاندہی پولیس کو کریں۔ تاکہ جلد از جلد ملزمان تک پہنچا جا سکے۔‘
عائشہ اکرم نامی ٹک ٹاکر اور یوٹیوبر 14 اگست کو مینار پاکستان پر اپنی ٹیم کے ہمراہ ویڈیوز بنانے گئیں جہاں انہیں سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے ہراساں کیا۔
مزید پڑھیں
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے عائشہ اکرم نے بتایا ’ میں اور میری ٹیم کوئی ساڑھے چھ بنے کے قریب مینارپاکستان پہنچے جہاں ہم اپنا کام کر رہے تھے۔ کہ ایسے میں لڑکوں کا ایک گروہ ہماری طرف متوجہ ہوا۔ جنہوں نے ہمارے کام میں خلل ڈالنا شروع کیا۔ وہ زبردستی سیلفیاں بنا رہے تھے۔ اس حد تک تو قابل قبول تھا لیکن مجھے اس وقت حالات کی سنگینی کا علم نہیں تھا جب ایک طرف سے اچانک دھکا لگا اور میں گر گئی اور ہجوم تھا جو میرے درپے تھا‘۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہے تھی اور ہر کوئی مجھے چھونے کی کوشش کر رہا تھا۔ میری ٹیم کے لڑکے ان کو روکنے کی کوشش کررہےتھے لیکن وہ کسی کی بات نہیں سن رہے تھے۔ اچانک ان میں سے ایک دو میرے ہمدرد بن جاتے اور بچانے کے لئے دبوچ لیتے۔ تو دوسرے لوگ ان پر حملہ آور ہو جاتے۔ کوئی میرا دوپٹہ چھین رہا تھا کوئی مجھے دبوچ رہا تھا۔ جتنی مجھے ہوش تھی میں ایک طرف کو بھاگتی تو یہ ہجوم میرے ساتھ ساتھ چلتا اور اچانک کوئی دھکہ دے کر گرا دیتا۔ مجھے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا۔‘
عائشہ اکرم نے یہ بھی بتایا کہ اس دوران مینار پاکستان کی سکیورٹی کے دو اہلکاروں نے ایک مرتبہ انہیں اس ہجوم سے بچا کر مینار پاکستان کے اندورونی جنگلے میں دھکیل دیا ’وہ پہلے لمحات تھے جب مجھے کچھ سکون آیا لیکن اگلے چند منٹوں میں یہ لوگ وہ جنگلہ پھلانگ کر بھی اندر آگئے۔ یہ وہ جگہ نہیں جو مینارپاکستان کی بیس ہے۔ یہ لوگ مجھے ادھر سے دھکیلتے ہوئے باہر لے گئے۔ اسی دوران میری ٹیم جو بے بسی سے میرے ساتھ ہی تھی نے پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کی۔ لیکن پولیس بہت تاخیر سے آئی۔‘
