’کیا امریکہ کی افغان جنگ کا کوئی فائدہ بھی تھا؟‘امریکی فوجیوں، متاثرہ خاندانوں کا سوال
’کیا امریکہ کی افغان جنگ کا کوئی فائدہ بھی تھا؟‘امریکی فوجیوں، متاثرہ خاندانوں کا سوال
جمعرات 26 اگست 2021 20:43
امریکی میرین ایلک کیتھرووڈ صوبہ ہلمند میں طالبان سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے۔ فوٹو اے پی
امریکی مرین ایلک کیتھرووڈ کو افغانستان میں تعینات ہوئے تین ہفتے ہوئے تھے کہ طالبان سے لڑتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ایلک کی والدہ گریچن کیتھرووڈ کے لیے اپنے 19 سالہ بیٹے کی ہلاکت کی خبر کسی صدمے سے کم نہ تھی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے گریچن کیتھرووڈ نے وہ خوفناک لمحہ دہرایا جب تین میرین اہلکار ان کے بیٹے کی موت کی خبر سنانے ان کے دروازے پر آئے۔
گریچن کیتھرووڈ کو معلوم تھا کہ میرین افسران کا ان کے گھر پر آنا صرف ایک ہی بات کی جانب اشارہ کرتا ہے جو وہ نہیں سننا چاہتی تھیں۔
’میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ کچھ بھی کہیں۔ کیونکہ وہ کچھ بھی کہتے تو ظاہر ہے سچ ہی ہوتا۔‘
بیٹے کی موت کی خبر سنتے ہی گریچن اتنی دیر تک زور زور سے چیختی رہیں کہ اگلے دن بات کرنے کے لیے بھی ان کی آواز حلق سے نہیں نکل رہی تھی۔
19 سالہ ایلک کیتھرووڈ 14 اکتوبر 2010 کو طالبان سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے تھے۔
افغانستان میں گزشتہ دو ہفتوں میں پیش آنے والے واقعات نے ایک مرتبہ پھر گریچن کی دکھی یادیں تازہ کر دی ہیں، اور ایک سوال جو بار بار ان جیسی بیشتر ماؤں کو پریشان کر رہا ہے کہ کیا امریکہ کی افغانستان میں جنگ کا کوئی فائدہ بھی تھا۔
صدر جو بائیڈن کے امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے اچانک فیصلے کے بعد سے متعدد متاثرہ خاندان گریچن سے سوال کرتے ہیں کہ کیا جو درد اور تکلیف انہوں نے جھیلی اس کا کوئی مقصد بھی تھا؟
گریچن کے دوستوں نے بھی ملے جلے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں کہا کہ ان کا بیٹا ایلک بغیر کسی مقصد کے ہلاک ہو گیا۔
گریچن نے امریکی جنگ سے متاثرہ افراد کو تسلی دیتے ہوئے انہیں یقین دلایا کہ ان کی لڑائی بے مقصد نہیں تھی اور نہ ہی ان کے بیٹے ایلک نے کسی بے مقصد چیز کے پیچھے اپنی جان گنوائی۔
گریچن اپنے گھر میں ’ڈارک ہاؤس‘ کے نام سے ایک لاج تیار کر رہی ہیں جہاں ان تمام فوجیوں کو اکھٹے ہونے کا موقع ملے گا جو افغانستان میں جنگ لڑ چکے ہیں۔ اس لاج میں 25 کمرے ہیں اور ہر کمرا کمرہ جنگ میں ہلاک ہونے والے فوجی کے نام پر رکھا گیا جو ان کے بیٹے کی بٹالین کا حصہ تھے۔
ایلک کیتھرووڈ پانچیوں میرین رجمنٹ میں تعینات تھے جو عام زبان میں ’ڈارک ہارس بٹالین‘ کے نام سے جانی جاتی تھی۔
ڈارک ہورس بٹالین کے جو فوجی باحفاظت امریکہ واپس لوٹے، گریچن کے نزدیک وہ سب ان کے بیٹے ایلک کے جیسے ہیں۔ جبکہ اسی بٹالین کے متعدد فوجی خود کشی کرکے ہلاک ہو چکے ہیں۔
افغانستان میں حالیہ پیش رفت کا حوالہ دیتے ہوئے گریچن نے تشویش کا اظہار کیا کہ صدر جو بائیڈن کے فیصلے کے فوجیوں پر نفسیاتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
گریچن کے مطابق اگرچہ یہ فوجی بہت بہادر اور مضبوط ہیں لیکن کہیں وہ خود کو مورد الزام نہ ٹھہرائیں۔
ڈارک ہارس بیٹالین کے ایک ہزار میرین کو سال 2010 میں افغانستان میں تعینات کیا گیا تھا جو امریکی فوجیوں کے لیے ’خونی‘ مشن ثابت ہوا۔
ڈارک ہارس بٹالین نے صوبہ ہلمند کے ضلع سنگین میں طالبان سے لڑتے ہوئے چھ ماہ گزارے۔ امریکہ کے افغانستان میں جنگ کے10 سال بعد ہی ضلع سنگین پر طالبان کا مکمل قبضہ ہو چکا تھا۔
سنہ 2010 میں جب ڈارک ہورس بٹالین ضلع سنگین پہنچی تو ہر عمارت پر طالبان کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ مسجدوں کے لاؤڈ سپیکرز کو امریکی فوج پر طنز کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، جب کہ سکولز بند ہو چکے تھے۔
جیسے ہی میرینز کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے سنگین میں واقع ملٹری بیس پر اتارا جا رہا تھا کہ انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ایلک کیتھر ووڈ بھی اسی مشن میں شامل تھا اور میدان جنگ کا پہلی مرتبہ تجربہ کرنے جا رہا تھا۔
14 اکتوبر 2010 کو ایلک کیتھر ووڈ کا سکواڈ اپنے ساتھی میرینز کی مدد کرنے بیس سے باہر نکلا جو طالبان کے حملوں کی زد میں آ گئے تھے۔ سکواڈ آگے بڑھ رہا تھا کہ ایک میرین کا پاؤں بم پر آگیا جس سے زور دار دھماکہ ہوا۔ اس کے بعد ایک اور زور دار دھماکہ ہوا۔
سکواڈ کے سربراہ سارجنٹ شان جانسن بتاتے ہیں کہ انہوں نے جب اپنے بائیں جانب دیکھا تو ایلک کیتھر ووڈ منہ کے بل پانی میں تیر رہا تھا۔ سارجنٹ شان جانسن کو پتا چل گیا کہ 19 سالہ نوجوان ایلک کیتھرووڈ ہلاک ہو گیا ہے۔