تعلیم یافتہ افراد کا انخلا طالبان حکومت کے لیے مشکلات کا باعث بنے گا: ماہرین
تعلیم یافتہ افراد کا انخلا طالبان حکومت کے لیے مشکلات کا باعث بنے گا: ماہرین
جمعرات 2 ستمبر 2021 21:48
افغانستان سے انخلا کے دوران ایک لاکھ سے زائد شہریوں کو نکالا گیا تھا۔ فوٹو اے ایف پی
افغانستان سے انخلا کرنے والے شہریوں میں اکثریت تربیت یافتہ پیشہ ور افراد کی تھی جن کے جانے سے طالبان کی حکومت کرنے کی اہلیت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کابل سے شہریوں کے انخلا کے آپریشن کے دوران ان افغانوں کو ترجیح دی گئی تھی جو افغان حکومت اور نیٹو افواج کے ساتھ کام کر رہے تھے، یا پھر جن کی زندگی طالبان کی حکومت میں محفوظ نہ ہوتی۔
انخلا کرنے والوں میں افغان بیوروکریٹ، بینکوں اور این جی اوز میں کام کرنے والے، سماجی کارکن، صحافی اور دیگر تعیم یافتہ طبقہ شامل ہے جو سابق حکومت اور سوسائٹی کے اہم رکن تھے۔
کابل میں نوکری کرنے والے ایک سابق حکومتی عہدیدار رشید نے بتایا کہ وہ کبھی بھی اپنا ملک چھوڑنا نہیں چاہتے تھے کہ کہیں اور نئے سرے سے زندگی کا آغاز کریں۔
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد 40 سالہ رشید نے اپنی بیوی اور بچوں کے ہمراہ اب فرانس میں پناہ لی ہوئی ہے۔
’افغانستان میں میرے پاس سب کچھ تھا۔ اطمینان بخش ملازمت تھی، پچاس لوگ میرے نیچے کام کرتے تھے، سوشل سٹیٹس تھا۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ میں جو کچھ بھی کر رہا تھا وہ افغانستان کی عوام کے لیے فائدہ مند تھا۔‘
رشید نے یورپ کی ایک یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصلی کی تھی۔
’میرے ساتھ یونیورسٹی میں جو تیس یا چالیس لوگ پڑھتے تھے وہ تمام ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ یہ ملک کا بہت بڑا نقصان ہے۔‘
ماہرین کے خیال میں دنیا کے غریب ترین ملک افغانستان سے اتنے افراد کا چلے جانا بہت بڑا نقصان ہے جو طالبان کے لیے ملک چلانے میں پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اس خدشے کا اظہار پریس کانفرنس کے دوران بھی کیا تھا۔ ترجمان نے کہا تھا کہ امریکہ کو ’شہریوں کے انخلا کا عمل بند کرنا چاہیے۔ اس ملک کو ان کی مہارت کی ضرورت ہے۔ انہیں دوسرے ممالک نہیں لے کر جانا چاہیے۔‘
لگسمبرگ کی ایک یونیورسٹی میں نقل مکانی کے ماہر فریڈری نے بتایا کہ جب بھی کوئی ملک بحران کا شکار ہوتا ہے تو بیرون ملک پناہ لینے والوں میں سب سے زیادہ تعداد تربیت یافتہ افرادکی ہوتی ہے۔
کابل میں امریکی یونیورسٹی میں پڑھانے والے مائیکل بیری کا کہنا ہے کہ طالبان تحریک میں شامل اکثر افراد کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے جو ریاستی بیوروکریسی کو نہیں سمجھتے۔
انہوں نے بتایا کہ طالبان کو حکومت چلانے کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی ضرورت ہوگی جو انتظامیہ کا پہیہ چلائے رکھیں، جسے عالمی امداد کی ضرورت پڑے گی چاہے وہ صرف چین، پاکستان یا قطر سے ہی کیوں نہ ہو۔
مائیکل بیری کا کہنا تھا کہ کسی بھی جابرانہ معاشرے میں تعلیم یافتہ طبقہ مزاحمت کا ذریعہ ہوتا ہے، اگر انہیں ملک سے جانے دیا جائے تو کسی بھی قسم کی مزاحمت یا تبدیلی کے مواقع کم ہو جاتے ہیں۔
اکثر جلا وطن افراد اپنے ملک کے ساتھ رابطہ رکھتے ہیں، تجارت اور سرمایہ کاری کے فروغ میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
کینیا میں مشرقی افریقی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر علی وارسم نے اپنا تجربہ دہراتے ہوئے بتایا کہ ’30 سال پہلے میں نے اپنے ملک سومالیہ پر ڈرامائی اثرات مرتب ہوتے ہوئے دیکھے تھے۔ افغانستان اور سومالیہ میں بہت سے معلاملات پر مماثلت بھی ہے، جیسے کہ خانہ جنگی اور قبائلی معاشرہ۔‘
انہوں نے بتایا کہ وہ 1990 میں ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے اور واپس آنے میں 20 سال کا عرصہ لگا۔