پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ ’امریکہ تسلیم کرے کہ اسے افغانستان میں شکست ہوئی ہے۔ اب طالبان کو وقت دینا چاہیے۔ اگر دنیا کے بڑے ممالک اور ادارے ایک فاتح قوت کے خلاف جارحانہ رویہ رکھیں گے تو وہ (طالبان) بھی ردعمل دکھائیں گے۔‘
اردو نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ ’افغانستان میں کچھ بھی ہو پاکستان اس سے متاثر ہوتا ہے۔ امریکہ اور اس کے 46 اتحادیوں نے 20 سال میں ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ’آپ طالبان کو ہٹانے آئے تھے اب آپ بھاگ گئے اور طالبان پھر آگئے۔‘
مزید پڑھیں
-
افغانستان سے امریکی انخلا خطے میں چین کی بالادستی کا نقطہ آغاز؟Node ID: 596276
انہوں نے کہا کہ ’اب وہ بائیڈن کہتا ہے کہ ہم تو دہشت گردی کے خلاف گئے تھے نیشن بلڈنگ کے لیے تو نہیں گئے تھے۔ آپ کیوں کہتے جا رہے تھے کہ آپ نے دہشت گردی ختم کی؟ آپ نے تو پورا افغانستان ہندوستان کو دے دیا کہ وہ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کریں۔ آپ نے کرپٹ حکومت کو سنبھالا دیا۔ آپ افغان نیشنل آرمی بنا رہے تھے کدھر گئی وہ فوج؟ 46 ملکوں کی فوج تھی اور طالبان بغیر خون خرابے کے خود ہی پاور میں آگئے۔‘
ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ ’بڑے قصے چل رہے ہیں کہ پاکستان نے طالبان کو اتنے سال ٹریننگ دی۔ میری بات سنیں پاکستان سپر پاور ہے کہ جو دنیا کے 46 ٹاپ ممالک اور امریکہ کو شکست دے سکتی ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ جنگ ہوئی نہیں ورنہ اور الزامات لگنے تھے۔ ہار مانیں اپنی غلطیاں مانیں آپ کا ایجنڈا کنفیوز تھا آپ نے کچھ نہیں کیا افغانستان میں۔ اب جب افغان واپس آئے اور غیر ملکیوں کو نکالا ہے میں کہتی ہوں ان کو ٹائم دیں۔‘
’لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان طالبان کا حامی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر ایک حکومت آتی ہے جو ہمارے ساتھ دوستی رکھتی ہے تو ہم کیوں اس کی مخالفت کریں؟ اشرف غنی جو پاکستان مخالف تھا۔ حامد کرزئی جنھوں نے ہندوستان کو پورا اپنا ملک دے دیا کہ آپ پاکستان کے خلاف دہشت گردی کریں۔ بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کو دے دیا، سارے پاکستان دشمنوں کو اپنے ملک میں پالا اور پھر آپ کہتے ہیں ہم اشرف غنی کو گلے لگاتے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پاکستان ہمیشہ سے شکار رہا ہے۔ پہلے ہم ایک ایسی جنگ میں گئے جو ہماری جنگ نہیں تھی۔ 80 ہزار سے زائد جانوں کی قربانیاں دیں ہیں۔ ہمارے ہاں دہشت گردی بڑھی ہے۔ ہم نے آپ کی مدد کی جو ہمیں کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی اور آپ ہمارے اوپر الزامات اور پابندیاں لگاتے ہیں۔ بہت ہوگیا اب ہم مزید یہ برداشت نہیں کریں گے۔ اب ہم صرف پاکستان کا مفاد دیکھیں گے۔‘

طالبان کی متوقع حکومت سے وابستہ توقعات کے حوالے سے ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ ’ہمیں امید ہے کہ وہ سارے لسانی گروپوں کو حکومت سازی میں شامل کریں گے۔ لیکن بہرحال وہ جیت کر آئے ہیں آپ کہتے ہیں جو لوگ ہار گئے ہیں انھیں وہ لوگ حکومت میں لے آئیں تو یہ تو زیادتی ہے نا یہ کہیں نہیں ہوتا، یہ تو ان پر ہے لیکن جو ان کے بیانات آرہے ہیں وہ حوصلہ افزا ہیں۔ میں سمجھتی ہوں جتنی شراکت داری ہوگی اتنا بہتر ہوگا۔‘
’پہلے سے ہی امریکہ نے جیسے طالبان کے اثاثے منجمد کر دیے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے افغانستان کے فنڈز معطل کر دیے ہیں۔ آپ ایک جیتی ہوئی طاقت کو دیوار سے لگائیں گے اور پہلے سے ہی جارحانہ رویہ اپنائیں گے تو آپ ان کو موقع ہی نہیں دے رہے۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو وہ بھی ردعمل دیں گے۔ آپ کو چاہیے کہ آپ ان کے ساتھ رابطے کریں۔‘
انھوں نے کہا کہ دوحہ معاہدے کے لیے بھی تو امریکہ نے طالبان سے رابطے کیے، بات چیت کی اور معاہدہ کیا۔ پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ ملا برادر کو رہا کریں تاکہ معاہدہ کیا جا سکے۔ انھیں امریکہ بلایا اور بات چیت کی۔ اب جب طالبان جیت چکے ہیں تو ان سے بات چیت کریں تاکہ افغانستان میں سالہا سال کی بدامنی کا خاتمہ ہو سکے۔‘
