فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی نائب صدر کملا ہیرس کا پچھلے ہفتے جنوب مشرقی ایشیا میں ہونا واشنگٹن کے اس سٹریٹجک موڑ کی طرف ایک اشارہ ہے۔
اس وقت امید کی جا رہی ہے کہ اس خطے کے دیو(یعنی چین) کے خلاف اب امریکی اتحادیوں کو کسی قدر تقویت ملے گی۔
ہیرس نے بیجنگ پر الزام عائد کیا کہ وہ ’ایسے اقدامات جو اصولوں پر مبنی بین الاقوامی نظم کے لیے خطرہ بنتے ہیں‘ خاص طور پر بحیرہ جنوبی چین کے علاقے سے متعلق جارحانہ دعوؤں کا مرتکب ہو رہا ہے۔
ان کے سنگاپور اور ویت نام کے دورے کو صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی طرف سے ایشیائی اتحادیوں کو یقین دلانے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا جو افغان حکومت کے اچانک زوال کے بعد کابل سے امریکہ کے انخلا سے کچھ پریشان سے ہو گئے تھے۔
ایڈم سمتھ نے ان تجاویز کو مسترد کر دیا کہ امریکیوں کی طرف سے کمزوری کا وقتی مظاہرہ چین کو تائیوان پر حملہ کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے خارجہ پالیسی کے ماہر ریان ہاس نے کہا کہ افغانستان سے امریکی انخلا ایشیا میں واشنگٹن کی ساکھ پر دیرپا اثر نہیں ڈالے گا۔
ہاس نے کہا ’ایشیا میں امریکہ کا کھڑے رہنا اس کے شراکت داروں کے ساتھ چین کے عروج کو متوازن کرنے اور طویل امن کے تحفظ میں ہے جس نے خطے کی تیز رفتار ترقی کو متاثر کیا ہے۔‘
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ مشرقی ایشیا کی طرف امریکہ کا رخ امریکہ اور اس کے شراکت داروں کے لیے ’نئے مواقع کھولے گا۔‘
’امریکی انخلا چین اور روس کے لیے حوصلہ افزا نہیں‘
امریکی ایوان نمائندگان میں مسلح افواج کی کمیٹی کے سربراہ ایڈم سمتھ نے کہا کہ افغانستان سے امریکی انخلا سے امریکہ اور حریف سپر پاور روس اور چین کے درمیان توازن میں تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔
انہوں نے منگل کو ان تجاویز کو مسترد کر دیا کہ امریکیوں کی طرف سے کمزوری کا وقتی مظاہرہ چین کو تائیوان یا روس کو یوکرین پر حملہ کرنے کی ترغیب دے سکتا ہے۔
سمتھ نے ایک آن لائن بروکنگ کانفرنس کے دوران کہا کہ ’جو بھی یہ سمجھتا ہے کہ ان کا (روس یا چین کا) حساب کتاب نمایاں طور پر تبدیل ہو گیا ہے کیونکہ ہم نے افغانستان سے اپنے آخری اڑھائی ہزار فوجیوں کو نکال لیا ہے۔ میں بالکل بھی ایسا نہیں سمجھتا۔
انہوں نے کہا کہ ’بہت سارے دوسرے مسائل ہیں جو روس اور چین کو یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ دنیا کے ان حصوں میں جارحانہ اقدامات کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں۔‘
ریان ہاس نے کہا کہ افغانستان سے امریکی انخلا ایشیا میں واشنگٹن کی ساکھ پر دیرپا اثر نہیں ڈالے گا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پینٹاگون کے سابق عہدیدار اور اب رینڈ کارپوریشن تھنک ٹینک کے دفاعی ماہر ڈیرک گراس مین نے کہا کہ چین طالبان کے ساتھ اچھے تعلقات کو فروغ دے کر فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
بیجنگ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا جلد فیصلہ کر سکتا ہے لیکن واشنگٹن اور دیگر مغربی حکومتیں فی الحال ایسا نہیں کریں گی کیونکہ وہ امید کرتی ہیں کہ وہ افغانستان کے نئے حکمرانوں کو اپنی سخت گیر پالیسیوں میں اعتدال لانے پر راضی کریں گی۔
گراس مین نے کہا کہ ’چین امریکہ کے ساتھ مقابلے میں ایک نئی بڑی طاقت کے طور پر شاید عالمی واقعات کو سنبھالنے کے اپنے انوکھے طریقے کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے جو اکثر واشنگٹن کے نقطہ نظر کے برعکس ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا ’طالبان کے زیر انتظام افغانستان کو تسلیم کرنے سے یہ تاثر ملے گا کہ اب ایجنڈا واشنگٹن نہیں بلکہ بیجنگ ترتیب دے رہا ہے اور وہی مستقبل کے علاقائی نظام کو تشکیل دے رہا ہے۔‘