طالبان کے صوبائی گورنر کا داعش سے لڑائی جاری رکھنے کا عزم
ملا ندا محمد نے کہا کہ ’طالبان کے اقتدار میں ہونے کے بعد ’(داعش) کے یہاں موجود رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی۔ ہم داعش کو خطرہ نہیں سمجھتے۔‘(فوٹو: اے ایف پی)
افغانستان کے ننگرہار صوبے کے گورنر ملا ندا محمد نے حریف عسکریت پسند گروپ داعش کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اگست میں طالبان کی فتح کے بعد ندا محمد نے ننگرہار صوبے کے گورنر کا عہدہ سنبھالا جو کہ داعش افغانستان-پاکستان چیپٹر کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
ندا محمد نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم ان افراد کو تلاش کر رہے ہیں جو چھپے ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ جب طالبان نے ملک کے پانچویں بڑے شہر جلال آباد کا کنٹرول سنبھالا تو 70 سے 80 داعش کے ارکان کو گرفتار کیا گیا۔
واضح رہے کہ افغانستان میں حالیہ برسوں کے مہلک حملوں، مساجد، مزارات، عوامی مقامات اور ہسپتالوں میں شہریوں کے قتل عام کے لیے داعش ذمہ دار رہی ہے۔
داعش ہی نے 26 اگست کو کابل ایئرپورٹ کے قریب ایک تباہ کن خودکش بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں 100 سے زائد افغان اور 13 امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
2011 کے بعد افغانستان میں امریکی افواج کے خلاف یہ مہلک ترین حملہ تھا۔
اس کے باوجود ندا محمد کا کہنا ہے کہ وہ داعش ایسا بڑا خطرہ نہیں سمجھتے جیسا کہ وہ عراق اور شام میں رہی ہے۔
انہوں نے جلال آباد میں طالبان کے جھنڈوں سے سجے ہوئے جلال آباد گورنر پیلس میں اے ایف پی سے داعش سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا ’انہیں شمالی اور مشرقی افغانستان میں بہت زیادہ جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ طالبان کے اقتدار میں ہونے کے بعد ’(داعش) کے یہاں موجود رہنے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی۔ ہم داعش کو خطرہ نہیں سمجھتے۔‘
اگرچہ داعش اور طالبان دونوں سخت گیر اسلام پسند عسکریت پسند ہیں لیکن ان کے درمیان مذہب کی تشریح اور حکمت عملی کے اختلافات ہیں اور ان میں ہر ایک جہاد کا حقیقی علمبردار ہونے کا دعویدار ہے۔
اس اختلاف کی وجہ سے دونوں کے درمیان خونی جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔