انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی سیاسی جماعتوں کی نمائندہ تنظیم آل پارٹیز حریت کانفرنس نے سید علی گیلانی کی وفات کے بعد ان کا ’سایہ‘ اور ’جانشین‘ سمجھے جانے والے مسرت عالم بھٹ کو نیا چیئرمین منتخب کر لیا ہے۔
جموں و کشمیر مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے مسرت عالم بھٹ اپنی 50 برس کی زندگی میں سے 24 سال انڈین جیلوں میں گزار چکے ہیں۔ انھیں انڈین حکام کی جانب سے 38 مرتبہ حراست میں لیا گیا۔ اس وجہ سے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سنگاپور کے ڈاکٹر چائی تھائے پوش کے بعد ایشیا میں طوﯾل ﻋرﺻﮯ ﺗﮏ سیاسی قیدی رہنے والی شخصیت ہیں۔
مزید پڑھیں
-
کیا علی گیلانی کے بعد کشمیر کی مزاحمتی سیاست کا باب بند ہو گیا؟Node ID: 596681
-
علی گیلانی کے اہلخانہ کے خلاف مقدمہ سفاکیت کی مثال، عمران خانNode ID: 597436
انھیں کشمیر میں حق ﺧود ارادیت اور آزادی ﮐﯽ جنگ کے لیے سرگرم ہونے پر جموں و کشمیر پبلک سیفٹی اﯾﮑٹ 1978 ﮐﮯ ﺗﺣت 38 ﺑﺎر ﺣراﺳت ﻣﯾں لیا گیا ﮨﮯ اور وہ کسی اﻟزام ﯾﺎ ﻣﻘدﻣﮯ ﮐﯽ سماعت ﮐﮯ بغیر چوبیس سال جیلوں میں رہے ہیں۔
جون 1971 میں سری نگر میں پیدا ہونے مسرت عالم بھٹ اگرچہ پہلی بار 19 سال کی عمر میں گرفتار ہوئے تاہم 2008 سے قبل کشمیری ان کے نام سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے تھے۔
وہ 2008 میں اس وقت مزاحمتی رہنما کے طور پر ابھرے جب انہوں نے کشمیر کی زمینوں کو آل ہندو شرائن بورڈ کو منتقل کیے جانے کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا اور عملی جدوجہد شروع کی جس کے بعد انھیں گرفتار کرلیا گیا اور انھیں کشمیر سے باہر بھی انڈین جیلوں میں رکھا گیا۔
26مئی 2008 کو کشمیر میں انڈین ﺣﮑﺎم ﻧﮯ 99 اﯾﮑڑ ﺟﻧﮕﻼت ﮐﯽ زمین کو اﻣرﻧﺎﺗﮭ ﻣزار ﺑورڈ کو منتقل ﮐردﯾﺎ۔ اس پر تنازع پیدا ہوا اور زمین کی منتقلی کے خلاف کشمیر میں مظاہرے شروع ہوگئے۔ کشمیریوں ﻧﮯ منتقلی ﮐﮯ آرڈر واپس لینے کا مطالبہ کیا کیونکہ اس ﺳﮯ ماحولیاتی مسائل ﮐﮯ ﻋﻼوه مسلم اکثریتی خطے میں ہندوؤں کو آﺑﺎد ﮐرﻧﮯ کی منصوبہ بندی عیاں تھی۔
جب انڈین فوج نے تین ماہ تک جاری رہنے والی بغاوت کے دوران 60 سے زائد افراد کو قتل کیا تو کشمیر میں اﯾﮏ ﮨﯽ رﯾﻠﯽ میں لاکھوں افراد امڈ اور ﺑﺎﻵﺧر منتقلی روک دی گئی۔

دو ﺳﺎل بعد جون میں مسرت عالم ﮐﯽ ﺣراﺳت کو کشمیر ﮐﯽ اﯾﮏ اﻋﻠﯽٰ عدالت ﻧﮯ منسوخ ﮐردﯾﺎ اور رﮨﺎ ﮐردﯾﺎ ﮔﯾﺎ۔ کچھ دن روپوش رہنے کے بعد انہوں ﻧﮯ ’کشمیر ﭼﮭوڑ دو‘ تحریک ﮐﺎ اﻋﻼن ﮐﯾﺎ۔
کشمیر میں پہلی بار پیلٹ گنز کا استعمال کیا گیا تو مسرت عالم کا نعرہ ’گو انڈیا، گو بیک‘ نے پورے کشمیر میں گونجنے لگا جس کے بعد انھیں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا اور وہ تب سے زیر حراست ہیں۔
ﻣﺳرت عالم زمانہ طالب علمی سے مزاحمتی سیاست میں حصہ لے رہے ہیں۔ جب انھیں پہلی بار گرفتار کیا گیا تھا اس وقت ان کی عمر 19 برس تھی۔ اور ان کو ﺣزب ﷲ کا رکن ہونے کے الزام میں دو اکتوبر 1990 کو پی ایس اے کے تحت گرفتار کیا گیا۔
انھیں نومبر 1991 ﻣﯾں رﮨﺎ کیا گیا ﺗﺎﮨم 1993 ﻣﯾں ﭘﮭر ﺣراﺳت ﻣﯾں ﻟﯾﺎ ﮔﯾﺎ اور1997 تک جیل میں رکھا گیا۔ رہائی کے چھ ماہ بعد ستمبر 1997 میں پھر گرفتار کیا گیا جبکہ چوتھی بار مئی 2000 ﺗﮏ ﮔرﻓﺗﺎر ﮐﯾﺎ ﮔﯾﺎ۔
ﺟﻧوری میں 2001 ﻣﯾں پھر گرفتار ہوئے اور اﮔﺳت 2003 میں دو ﻣﺎه ﮐﮯ لیے رﮨﺎ ﮐﯾﺎ ﮔﯾﺎ۔ انہیں دوﺑﺎره اﮐﺗوﺑر 2003 ﻣﯾں ﺣراﺳت میں ﻟﯾﺎ ﮔﯾﺎ اور 2005 ﻣﯾں رﮨﺎ ﮐﯾﺎ ﮔﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔
اس دوران اے پی ایچ ﺳﯽ ﮐﮯ اﯾﮏ حصے ﻧﮯ اس وقت کے وزﯾراﻋظم ڈاﮐﭨر ﻣن ﻣوﮨن ﺳﻧﮕﮭ کے ساتھ کشمیر کے تنازع کے حوالے سے ﺑﺎت ﭼﯾت شروع ﮐﯽ ﺗﮭﯽ۔ اس بنیاد پر منموہن ﺳﻧﮕﮭ ﻧﮯ پبلک سیفٹی ایکٹ اور پوٹا کے تحت گرفتار کیے جانے والے کشمیری قائدین کو رہا کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
