صدرعارف علوی کا پارلیمان سے خطاب، اپوزیشن کا ایوان سے واک آؤٹ
صدرعارف علوی کا پارلیمان سے خطاب، اپوزیشن کا ایوان سے واک آؤٹ
پیر 13 ستمبر 2021 13:10
صدر مملکت عارف علوی کے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے دوران اپوزیشن نے شدید نعرے بازی کی اور اجلاس سے واک آؤٹ کیا ہے جبکہ احتجاج کی وجہ سے صحافیوں کے لیے پریس لاؤنج اور پریس گیلری بند کر دی گئی۔
صدر کے خطاب کے دوران اپوزیشن کے ارکان گو نیازی گو نیازی کے نعرے بھی لگائے۔
پارلیمان سے خطاب میں صدر نے کہا ہے کہ حکومت کی بہتر معاشی پالیسیوں کی وجہ سے معیشت مستحکم ہو رہی ہے۔ پاکستان میں معیشت کی نمو کورونا کے دوران بہتر رہی۔
اپوزیشن کے ارکان نے مختلف بینرز اٹھا رکھے ہیں جن پر مہنگائی اور بے روزگار کے خلاف نعرے درج ہیں۔ اس کے علاوہ اپوزیشن نے میڈیا کی آزادی کے حوالے سے بھی بینرز اٹھا رکھے ہیں۔ صدر نے کہا کہ شور مچانے کی بجائے حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی۔
صدر نے کہا کہ ’نوجوانوں کی آن لائن تربیت کا پروگرام دیا جا چکا ہے اور اب تک 17 لاکھ نوجوانوں کو ڈیجیٹل مہارت میں تربیت دی جا چکی ہے۔‘
’انسانی ترقی کے شعبوں کو نظر انداز کیا۔ کرپشن کے ناسور اور ماضی کے غلط ترجیحات کی وجہ سے ہم ترقی سے محروم رہیں۔‘
صدر نے خطاب میں کہا کہ ’قومی سلامتی کا تصور صرف سرحدوں اور صرف فوجی معاملات تک محدود نہیں۔‘
صدر نے کہا کہ انـتخابات کی شفافیت ہونی چاہیے۔ ای وی ایم ایک اہم آلہ ہے۔ اس سے انتخابات میں شفافیت آئے گی اور ووٹر کی رازداری رہے گی۔
’اس سسٹم میں پرانے بیلٹ پیپر کا نظام بھی شامل ہے۔ اس میں ووٹ بھی ہے اور کاؤنٹر بھی۔ میں درخواست کرتا ہوں کہ اس کو سیاسی فٹ بال نہ بنایا جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں حکومت کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ اس نے ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں کو ختم کرانے کے لیے سارے اعتراضات سے متعلق اقدامات کر کے لاگو بھی کر دیے۔‘
’بھارت کئی دہائیوں سے نہتے کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ وزیراعظم نے مؤثر انداز میں بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔‘
’میں کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت کرنے پر چین، ترکی، ایران اور دیگر ممالک کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘
افغانستان کے حوالے سے صدر نے کہا کہ پاکستان یہ چاہتا ہے کہ افغانستان کی نئی حکومت افغان عوام کو متحد کریں۔ اور افغان کی سرزمین سے پڑوسی ملک کو خطرہ نہ ہو۔
’دنیا افغان عوام کو بے یار و مددگار نہ چھوڑیں اور ان کی مدد کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ افغان مسئلے کا حل فوجی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔’دنیا عمران خان کے سیاسی تدبر پر ان کی شاگردی اور مریدی اختیار کرنی چاہیے۔‘
پارلیمان میں صدر کے خطاب کے موقع پر وزیراعظم عمران خان بھی ایوان میں موجود تھے۔
اجلاس شروع ہونے سے کچھ دیر پہلے قومی اسمبلی کے حکام نے فیصلہ کیا تھا کہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے کارڈ رکھنے والے صحافیوں کو کیفیٹیریا تک محدود رکھا جائے گا اور پریس لاؤنج اور پریس گیلری بند ہوگی۔
صحافیوں کی جانب سے متنازع حکومتی قانون کے خلاف پارلیمان کے باہر اتوار سے احتجاج جاری تھا اور اب صحافی پریس گیلری بند کے باہر احتجاج کر رہے ہیں۔
پیر کو اجلاس کا آغاز سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی صدارت میں ہوا۔ صدر مملکت کے خطاب سے موجودہ قومی اسمبلی کا چوتھا پارلیمانی سال شروع ہوگیا۔
آئین کے آرٹیکل 56 (3) کے تحت پارلیمانی سال کے آغاز کے لیے صدارتی خطاب لازمی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اجلاس کے بائیکاٹ اور پارلیمان ہاؤس کے اندر اور باہر احتجاج کی دھمکی دی گئی تھی۔
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اسمبلی سے واک آؤٹ اور ایوان کے باہر مظاہرہ کرنے سے قبل ہی صدر عارف علوی کے خطاب میں خلل پیدا کرنے کی حتمی حکمت عملی تیار کرلی گئی ہے۔
آئین کے تحت ہر پارلیمانی سال کے آغاز میں صدر، پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتا ہے جس کے بعد قومی اسمبلی میں بحث ہوتی ہے جسے کوئی وزیر سمیٹتا ہے، اس کے بعد صدر کو 'شکریہ کا ووٹ' دیا جاتا ہے۔
اپوزیشن نے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کے علاوہ اسمبلی کے باہر ہونے والے صحافیوں کے احتجاج میں شرکت کرنے کا بھی منصوبہ بنایا ہے۔ صحافی 'حکومت کی جانب سے میڈیا پر پابندیاں عائد کرنے کے خلاف' احتجاج کر رہے ہیں۔
جمعہ کو اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے اعلان کیا تھا کہ وہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کرے گی اور 13 ستمبر کو پارلیمان کے باہر ہونے والے صحافیوں کے احتجاج میں شرکت کرے گی۔
مولانا فضل الرحمٰن کی زیر صدارت پی ڈی ایم کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس کے ساتھ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اس دن اپوزیشن جماعتیں پارلیمان میں جائیں گی اور اجلاس کے بائیکاٹ سے قبل احتجاج کریں گی۔