Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغان سفارت کار غیریقینی صورتحال کا شکار

طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے افغانستان کے تمام سفارتخانوں کو پیغام پہنچایا ہے کہ سفارت کاروں کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کی جائے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
طالبان کے افغانستان میں اچانک اقتدار میں آنے سے بیرون ملک میں سینکڑوں افغان سفارت کار تذبذب کا شکار ہوگئے ہیں۔ ان کے پاس سفارتی مشن چلانے کے لیے پیسے ختم ہو گئے ہیں، جبکہ ساتھ ہی افغانستان میں اپنے اہلِ خانہ کی فکر اور بیرون ملک پناہ تلاش کرنے کی بے چینی نے انہیں گھیر لیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق طالبان کا کہنا ہے کہ انہوں نے افغانستان کے تمام سفارت خانوں کو پیغام پہنچایا ہے کہ سفارت کاروں کو کام جاری رکھنے کی ہدایت کی جائے۔
تاہم روئٹرز سے نام نہ ظاہر کرنے کی صورت پر بات کرنے والے سفارت خانے کے آٹھ ملازمین کا کہنا تھا کہ کینیڈا، جرمنی اور جاپان سمیت کچھ ممالک میں ان کا کام متاثر ہو رہا ہے۔
جرمنی کے دارالحکومت برلن میں موجود سفارتکار کا کہنا تھا کہ ’یہاں اور کئی ممالک میں میرے ساتھی میزبان ممالک سے درخواست کر رہے ہیں کہ انہیں پناہ دی جائے۔‘
انہیں فکر تھی کہ اگر وہ اپنا نام ظاہر کرنے کی اجازت دیں گے تو کابل میں ان کی اہلیہ اور چار بیٹیوں کا کیا ہوگا۔
’میں باقاعدہ بھیک مانگ رہا ہوں۔ سفارتکار پناہ گزین بننے کے لیے راضی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ انہیں کابل میں اپنا بڑا گھر سمیت سب بیچنا ہوگا اور ’دوبارہ شروعات کرنا ہوگی۔‘
بین الاقوامی تعلقات کے ماہر اور برطانیہ کی یونیورسٹی آف نوٹنگھم میں وزیٹنگ فیلو افضل اشرف کا کہنا تھا کہ افغانستان کے بیرون ملک مشنز کو ’طویل عرصے تک‘ غیر یقینی کا سامنا رہے گا کیونکہ ممالک نے فیصلہ ابھی فیصلہ کرنا ہے کہ طالبان کو تسلیم کیا جائے یا نہین۔
’وہ سفارت خانے کیا کر سکتے ہیں؟ وہ کسی حکومت کی نمائندگی نہیں کرتے۔ ان کے پاس نافذ کرنے کے لیے کوئی پالیسی نہیں ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ سفارت خانے کا عملہ چاہے گا کہ انہیں سیاسی پناہ دی جائے کیونکہ انہیں افغانستان واپس جانے پر حفاظتی خدشات ہیں۔
طالبان کے ترجمان نے افغانوں کو یقین دلایا ہے کہ وہ بدلہ لینے نہیں آئے ہیں اور خواتین سمیت سب کے حقوق کا خیال رکھیں گے۔
تاہم سابق حکومتی حکام کے خلاف کارروائیوں اور گھر گھر تلاشی کی رپورٹس نے لوگوں کو محتاط کر دیا ہے۔ طالبان نے کہا ہے کہ وہ اس پر تحقیق کریں گے۔

شیئر: