سعودی عرب کے سرکاری گزٹ ام القری نے ڈیوٹی ڈسپلن قانون کی دفعات شائع کی ہیں۔ سعودی کابینہ ان کی منظوری دے چکی ہے۔
سرکاری گزٹ کے مطابق قانون کی دفعہ 20 میں ایسی تین صورتوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں ملازم کے خلاف دعویٰ بے اثر ہوجائے گا۔
مزید پڑھیں
-
غیر ملکی کارکنان کا معاہدہ ملازمت، نجی اداروں پر نئی پابندیNode ID: 599966
-
’سعودی عرب اور امارات میں 50 سے 70 فیصد تک ملازمتوں میں اضافہ‘Node ID: 602631
قانون کے مطابق اگر کسی ملازم کی موت واقع ہوجائے یا جسمانی طور پر اس قدر معذور ہوجائے کہ اس سے پوچھ گچھ مشکل ہو اور میڈیکل رپورٹ سے اس کی تصدیق بھی ہوجائے تو اس صورت میں ملازم کے خلاف دائر ڈیوٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کا دعویٰ بے اثر ہوجائے گا۔
ملازم کے خلاف دعوے کے بے اثر ہونے کی تیسری صورت یہ بیان کی گئی ہے کہ اگر کسی ملازم نے ڈیوٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہو اور دو برس تک اس کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا گیا ہو اور نہ اس سے پوچھ گچھ کی گئی ہو، نہ اس پر مقدمہ چلایا گیا ہو تو ایسی صورت میں اس کے خلاف دائر کیا جانے والا دعویٰ بے اثر ہوجائے گا۔
اس حوالے سے یہ اضافہ بھی کیا گیا ہے کہ ڈیوٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر آخری کارروائی کی تاریخ پر دو برس گزر چکے ہوں تو ایسی صورت میں بھی دعویٰ بے معنی ہوجائے گا۔
ڈیوٹی ڈسپلن قانون کی دفعہ پانچ کے مطابق جس ملازم کی بابت مالیاتی یا انتظامی خلاف ورزی یا چال چلن کی خلاف ورزی ثابت ہوجائے تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔
زیادہ سے زیادہ تین ماہ کی تنخواہ کاٹی جاسکتی ہے اس کی انتہائی حد مقرر کی گئی ہے۔ ماہانہ خالص تنخواہ کی ایک تہائی سے زیادہ رقم نہیں کاٹی جاسکتی جبکہ سالانہ ایک الاؤنس سے محروم کیا جا سکتا ہے۔
مزید یہ کہ ترقی کے استحقاق کی تاریخ سے دو برس تک ترقی کی کارروائی نہ کی جائے۔