افغانستان پر طالبان کے تیز رفتار قبضے نے حیران کردیا تھا: امریکی وزیر دفاع
افغانستان پر طالبان کے تیز رفتار قبضے نے حیران کردیا تھا: امریکی وزیر دفاع
منگل 28 ستمبر 2021 20:24
امریکی فوجی قیادت کے مطابق افغانستان میں امریکی فوجی تعینات رکھنا چاہیے تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا ہے کہ ’طالبان کے افغانستان پر تیز رفتار قبضے نے امریکہ کو حیران کر کے رکھ دیا تھا۔‘
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق منگل کو امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے بیان میں لائیڈ آسٹن نے کہا کہ ’افغان فوج جسے ہم نے اور ہمارے اتحادیوں نے ٹریننگ دی تھی، (اس انداز میں) بکھر جائے گی، اور اکثر کیسز میں ایک گولی چلائے بغیر نے ہم سب کو حیران کر دیا تھا۔‘
خیال رہے کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد امریکی فوج کے اعلٰی افسران طویل ترین فوجی مشن کے خاتمے اور انخلا سے متعلق گواہی دینے پہلی مرتبہ کانگریس کے سامنے منگل کو پیش ہوئے ہیں۔
امریکی وزیر دفاع نے مزید کہا کہ ’ہم نے ریاست کی تعمیر میں مدد فراہم کی لیکن ہم قوم کی تشکیل نہ کر سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’امریکہ نے افغان فوج کو سازوسامان اور جہاز فراہم کیے اور انہیں استعمال کرنے کی مہارت بھی دی۔‘
’ان برسوں میں وہ (افغان فوجی) بہادری سے بھی لڑے۔ ہزاروں کی تعداد میں افغان فوجی اور پولیس افسر ہلاک ہوئے، لیکن آخر میں ہم انہیں جیتنے کی خواہش نہیں دے سکے۔‘
لائیڈ آسٹن کا کہنا تھا کہ ’امریکہ پوری طرح نہیں سمجھ سکا تھا کہ سینیئر افسران میں کس حد تک کرپشن اور ناقص قیادت پائی جاتی ہے۔‘
اس موقع پر امریکی فوج کے جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل مارک ملی نے کہا کہ ’طالبان دہشت گرد تنظیم تھی اور ہے، انہوں نے القائدہ کے ساتھ رابطے ختم نہیں کیے۔‘
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جنرل مارک ملی نے کہا کہ ’انہیں اس حوالے سے کوئی غلط فہمی نہیں کہ وہ کس سے نمٹ رہے ہیں، تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ طالبان اپنی طاقت مستحکم کرسکیں گے یا پھر ملک خانہ جنگی کا شکار ہو جائے گا۔‘
منگل کو امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے بیان میں جنرل مارک ملی کا کہنا تھا کہ ’کابل میں حکومت کو بچانے کے لیے 2500 امریکی فوجیوں کی ضرورت تھی۔‘
کانگریس کے سامنے گواہی میں امریکی فوجی قیادت نے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے افغانستان کی فوج کی حالت سے متعلق غلط اندازہ لگایا تھا، ان کا خیال تھا کہ طالبان کے قبضے سے بچانے کے لیے امریکہ کو ہزاروں کی تعداد میں فوجی تعینات رکھنا چاہیے تھے۔
کمیٹی کے رکن سینیٹر ٹام کاٹن نے جنرل مارک ملی سے سوال کیا کہ صدر کی جانب سے ان کی تجویز مسترد ہونے کی صورت میں وہ اپنے عہدے سے مستعفی کیوں نہیں ہوئے جس پر جنرل مارک کا کہنا تھا کہ ’صدر بائیڈن کو ان سے اتفاق کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
’انہیں فیصلے محض اس لیے لینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم جنرل ہیں، اور کسی بھی کمیشنڈ افسر کا مستعفی ہو جانا کیونکہ ان کی تجویز پر عمل نہیں کیا گیا، سیاسی نافرمانی کے مترادف ہوتا۔‘
جنرل مارک ملی کے ہمراہ امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میکنزی اور وزیر دفاع لائیڈ آسٹن بھی کانگریس کی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔