طالبان نے دھمکیوں کے باوجود اسامہ کو نکالا نہ ٹی ٹی پی کو نکالیں گے: اسد درانی
طالبان نے دھمکیوں کے باوجود اسامہ کو نکالا نہ ٹی ٹی پی کو نکالیں گے: اسد درانی
جمعرات 30 ستمبر 2021 15:38
روحان احمد، اردو نیوز، اسلام آباد
اسد درانی نے کہا کہ کالعدم تنظیموں بشمول داعش کو افغانستان یا امریکہ نہیں ختم کرسکتے بلکہ ان سے پاکستان کو خود نمٹنا ہو گا۔(فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستانی خفیہ ادارے انٹر سروس انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) اسد درانی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت پاکستان کے کہنے پر کوئی ایسا کام نہیں کرے گی جو اس کے اپنے مفاد میں نہ ہو۔
اردو نیوز نے جنرل (ر) درانی سے پوچھا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ افغان طالبان پاکستان کے مطالبے پر کالعدم تحریک طالبان کے خلاف کوئی کارروائی کریں گے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے کہنے سے وہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جو ان کے مفاد میں نہیں ہے۔‘
’ہم کہیں گے کہ ان کو (پاکستانی طالبان کو) نکال دیں، انہوں نے تو اسامہ بن لادن کو نہیں نکالا لوگوں کے کہنے پر، دھمکیوں کے باوجود۔‘
پاکستانی طالبان جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد 2014 میں آپریشن ردالفساد کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقوں سے بھاگ کر افغان صوبوں کنڑ اور ننگرہار منتقل ہو گئی تھی۔
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے کہنے پر وہ پاکستانی طالبان کے جنگجوؤں کو پکڑیں گے تو نہیں لیکن وہ ان کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کریں گے۔
’وہ ان کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے لیکن ہمارے کہنے پر وہ بھی نہیں کریں گے جو ہم کہہ رہے ہیں۔‘
دوحہ معاہدہ افغان طالبان کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور کابل میں حکومت قائم کرنے کے بعد بھی طالبان کے متعدد رہنما بھی اس بات کو دہراتے رہے ہیں۔
پچھلے ہفتے پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ پاکستان کے پاس طالبان کی افغان سرزمین کسی دوسرے ملک بشمول پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانیوں پر شک کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ’طالبان نے کئی مواقع پر دہرایا ہے کہ کسی گروہ یا دہشت گرد تنظیم کو کسی ملک بشمول پاکستان کے خلاف کسی دہشت گرد سرگرمی کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ہمارے پاس ان کی نیت پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، اور اسی لیے ہم ان سے مسلسل رابطے میں ہیں تاکہ اپنے قومی مفاد کا تحفظ کر سکیں۔‘‘
’ٹی ٹی پی یا داعش سے خود نمٹنا ہو گا‘
اسد درانی نے مزید کہا کہ کالعدم تنظیموں بشمول داعش کو افغانستان یا امریکہ ختم نہیں کرسکتے بلکہ ان سے پاکستان کو خود نمٹنا ہو گا۔
’ہمیں چھوٹی موٹی ٹی ٹی پی سے پریشان نہیں ہونا چاہیے، ہم ان سے اتنی جلدی پریشان ہو جاتے ہیں کہ جیسے یہ پتہ نہیں کیا مصیبت ہے۔‘
اسد درانی کہتے ہیں کہ ’اگر افغانستان میں طالبان کی حکومت پاکستانی طالبان کے پیچھے پڑ جائے تو باقی کام کون کرے گا۔‘ ’ایسے تو ان کے لیے ایک اور فرنٹ کھل جائے گا۔‘
’ہم نے طالبان کی مدد نہیں کی‘
امریکہ میں دو دن قبل دو سینیٹرز نے سینیٹ میں ایک بل پیش کیا ہے جس کا مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ 2001 سے 2020 کے دوران مبینہ طور پر پاکستانی ریاستی یا غیرریاستی اداروں بشمول حکومت پاکستان نے طالبان کی کتنی مدد کی۔
اس بل کے حوالے سے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ان کی (طالبان کی) مدد نہیں کی، ہم نے بس اتنا کیا کہ دباؤ کے باوجود ان کے خلاف ایکشن نہیں لیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایسا بل امریکہ میں آنا کوئی نئی بات نہیں اور اس سے پاکستان کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔
اپنے 32 سالہ کیریئر میں اسد درانی پاکستانی فوج میں کئی مرکزی عہدوں پر فائز رہے۔ وہ 1988 سے 1989 تک ملٹری انٹیلیجنس کے سربراہ اور 1990 سے لے کر 1991 تک آئی ایس آئی کے سربراہ رہے۔
اسد درانی تین کتابوں ’دا سپائی کرونیکلز‘، ’پاکستان آڈرفٹ‘ اور ’آنر امنگ سپائز‘ کے مصنف بھی ہیں۔
انہوں نے اپنی پہلی کتاب ’دا سپائی کرونیکلز‘ انڈین خفیہ ایجنسی را کے سربراہ اے ایس دولت کے ساتھ مل کر لکھی تھی جس کے بعد ان پر حکومت پاکستان کی جانب سے را سے تعلقات رکھنے کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔