Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان نے چمن سرحد گزرگاہ بند کر دی، ہزاروں افراد پھنس گئے

افغان طالبان نے ایک بار پھر پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر چمن سرحدی  گزر گاہ کو بند کردیا جس کے بعد سرحد کے دونوں جانب ہزاروں افراد پھنس گئے۔
بلوچستان میں سرکاری حکام نے سرحد کی بندش کی تصدیق کی ہے اور بتایا کہ سرحد افغان طالبان کی جانب سے بند کی گئی ہے لیکن اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی۔
چمن سرحد پر تعینات لیویز اہلکار عجب خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ جمعرات کی صبح طالبان نے اپنی حدود میں سرحدی گزرگاہ کو اچانک بند کردیا جس کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان پیدل آمدروفت معطل ہوگئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’صرف پیدل آمدروفت روکی گئی ہے، دونوں ممالک کے درمیان تجارتی سرگرمیاں کا سلسلہ جاری ہے اور طالبان کی جانب سے سامان سے لدی گاڑیوں کو افغانستان جانے اور وہاں سے پاکستان آنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔‘
اردو نیوز نے طالبان حکومت کے معاون وزیر اطلاعات  ذبیح اللہ مجاہد سے رابطہ کی کوشش کی انہیں وٹس اپ پر پیغامات بھی بھیجے مگر انہوں نے سرحد بند کرنے کی وجوہات سے متعلق سوال کا جواب نہیں دیا۔
بعض افغان میڈیا رپورٹس کے مطابق سرحد پر پاکستانی اہلکاروں اور افغان طالبان کے درمیان افغان باشندوں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر تکرار و بحث ہوئی جس کے بعد طالبان نے سرحد بند کردی۔ تاہم اس بات کی سرکاری طور پر کسی نے تصدیق نہیں کی۔
چمن کی ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ 'طالبان چاہتے ہیں کہ افغان باشندوں کو افغانی شناختی دستاویز 'تذکرہ ' کی بنیاد پر بلا روک ٹوک پاکستان میں داخلے کی اجازت دی جائے۔ یہ مطالبہ منوانے کے لیے انہوں نے دو ماہ پہلے بھی ایک ہفتے تک سرحد بند رکھی تھی۔'
بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو کہہ چکے ہیں کہ حکومت افغان باشندوں کو غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گی۔
چمن افغانستان اور پاکستان کی 2600 کلومیٹر طویل سرحد پر دو اہم سرحدی گزرگاہوں میں سے ایک ہے۔ گزشتہ ہفتے طالبان کی جانب سے ویزہ ہونے کے باوجود افغان شہریوں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت نہ ہونے پرطورخم سرحد کو بھی احتجاجاً بند کیا گیا۔

سرحد بند کیے جانے کے بعد دونوں جانب بڑی تعداد میں لوگ پھنس گئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

خیال رہے کہ چمن پاک افغان سرحد کو گذشتہ ماہ اگست کے اوائل میں بھی طالبان نے احتجاجاً بند کردیا تھا اور بعد ازاں پاکستان سے سرحد پر آمدروفت کے لیے مختص دورانیے کو تین گھنٹے سے بڑھا کر آٹھ گھنٹے کرنے اور افغان شہریوں کو افغان شناختی دستاویز تذکرہ پر پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دینے کے مطالبات منوانے کے بعد ایک ہفتے بعد سرحد پر آمدروفت کو بحال کیا۔
کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد اگست کے مہینے کے آخری دنوں میں بڑے پیمانے پر افغان شہری پاکستان آنا شروع ہوئے تو سرحد پر تعینات پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں نے دوبارہ شرائط سخت کرتے ہوئے افغان شہریوں کے داخلے پر پابندی لگائی۔ پاکستانی اہلکار صرف پاکستانی شناختی کارڈ رکھنے والے شہریوں کو واپس اپنے ملک آنے کی اجازت دے رہے تھے۔ ان سختیوں کی وجہ سے چمن کے راستے افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے کی اوسطاً تعداد یومیہ 18 ہزارسے کم ہوکر 5 ہزار سے بھی کم ہوگئی تھی۔ 
افغانستان میں بادام کی تجارت سے وابستہ کوئٹہ کے ایک تاجر روح اللہ نے بتایا کہ ’گذشتہ دو ہفتے سے پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں نے مزید سختی کردی ہے اور افغانستان میں موجود پاکستانی باشندوں پر بھی پابندی لگا دی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’سرحد پر تعینات سکیورٹی اہلکار صرف ان پاکستانی باشندوں کو آنے جانے دے رہے ہیں جن کے شناخت کارڈ پر سرحدی ضلع چمن کا پتہ درج ہے اور جن کے شناختی کارڈ پر کوئٹہ یا کسی بھی دوسرے ضلع اور صوبے کا پتہ درج ہے۔ پاکستانی شہری ہونے کے باوجود بھی انہیں پاکستان واپس آنے نہیں دیا جارہا۔

لیویز اہلکار عجب خان کے مطابق ’صرف پیدل آمدروفت روکی گئی ہے،‘ (فوٹو: روئٹرز)

انہوں نے بتایا کہ ’وہ بادام خریدنے افغانستان گئے تھے 10 دن گزارنے کے بعد جب وہ سرحد پر پہنچے تو داخلے کی شرائط بہت سخت کردی گئی تھیں اور پاکستانی حکام نے انہیں بار بار واپس افغانستان کی طرف دھکیلا۔‘
روح اللہ نے بتایا کہ وہ چار بار باب دوستی گیٹ عبور کر کے چند میٹر کے فاصلے پر پاکستانی حدود میں واقع دستاویزات کے جانچ پڑتال کرنے والے نادرا کاؤنٹر تک پہنچے لیکن وہاں سے کوئٹہ کا شناختی کارڈ ہونے پر انہیں واپس افغانستان بھیجا گیا مگر آٹھ گھنٹوں میں پانچویں کوشش پر اس وقت سرحد عبور کرنے میں کامیاب ہوئے جب شام کو سرحد بند ہونے والی تھی اور افغانستان کے سرحدی شہر سپین بولدک میں کاروبار کرنے والے چمن کے تاجروں کا ہجوم اکٹھا ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستانی حکام کے اس فیصلے سے افغانستان میں کاروبار کرنے والے پاکستانی تاجروں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ اس وقت افغانستان میں طالبان کی حکومت ہے جسے ہماری حکومت نے تسلیم نہیں کیا، ہم اگر قانونی طریقے سے افغانستان جانا چاہیں بھی تو ویزا کہاں سے حاصل کریں؟  پاکستانی حکومت کو سرحد پر آمدروفت سے متعلق ان مسائل کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔‘
دوسری جانب طورخم سرحد پر بھی افغان باشندوں کو پاکستان میں داخلے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ افغان امور کے ماہر پاکستانی صحافی طاہر خان نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ ’افغانستان میں پاکستانی سفارتخانے نے جن افغان باشندوں کو ویزے فراہم کیے ہیں ان کو بھی طورخم سرحد عبور کرکے پاکستان آنے نہیں دیا جا رہا۔ انہیں تین ماہ کے لیے ویزے جاری کیے گئے تھے جن میں سےاب کئی کے ویزے کی مدت بھی ختم ہورہی ہے۔'

دو ماہ قبل بھی ایک ہفتے کے لیے سرحد بند کی گئی تھی جس سے آنے جانے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ ’میری معلومات کے مطابق کابل سفارتخانے نے حالیہ ہفتوں میں 15 ہزار سے زائد افغان باشندوں کو ویزے جاری کیے جو صرف ہوائی راستے ہی پاکستان آ سکتے ہیں، اس لیے انہیں اسلام آباد اور کابل کے درمیان پی آئی اے اور افغان خام ایئر لائن  کے 1200 سے 1300 ڈالرز والی مہنگی ٹکٹس خریدنا پڑتی ہیں۔
طاہر خان کے مطابق بیشتر افغان باشندے خاص کر وہ طلبہ جن کے باقی ممالک کے تعلیمی اداروں میں داخلے ہوئے ہیں وہ اتنی بڑی رقم  نہیں دے سکتے۔ وہ زمینی راستے سے پاکستان آ کر دیگر ممالک جانا چاہتے ہیں لیکن انہیں داخلے کی اجازت نہیں مل رہی۔
انہوں نے بتایا کہ ’کورونا کا جواز بنا کر داخلے پر پابندیاں لگائی گئی ہیں لیکن سفارش پر سرحد عبور کرنے کے لیے گیٹ پاس دیے جا رہے ہیں اور اس سلسلے میں ایجنٹس 300 سے 400 ڈالرز وصول کررہے ہیں۔ پاکستانی حکام کو اس مسئلے کا نوٹس لینا چاہیے۔‘  تاہم جمعرات کو افغانستان میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان نے ٹویٹ کیا کہ ’ وزیر اعظم کی جانب سے سرحد پار کرنے کے لیے گیٹ پاس کی شرط ختم کرنے سے افغان شہریوں کی پاکستان آمد میں آسانی ہوگی۔‘

شیئر: