Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دلی: ذہن پر زور نہ ڈالیں

انڈیا کا چین کے ساتھ سرحدی تنازع مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
کبھی کبھی یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ انڈیا کو اس وقت درپیش سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ پھر ذہن میں خیال آتا ہے کہ یہ تو آسان سا سوال ہے: ظاہر ہے کہ جواب چین کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔
لیکن پھر اخبار پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تجارت میں تو نئے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں اور اب لگتا ہے کہ رواں مالی سال میں باہمی تجارت سو ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی، تو یہ اگر مسئلہ ہے بھی تو اچھا مسئلہ ہے۔
پھر ایک تجزیہ نگار یاد دلاتا ہے کہ چین کے ساتھ سرحدی تنازع اور پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے اور چونکہ ٹی وی پر آج کل کورونا کی طرح چین سے تعلقات کا زیادہ ذکرنہیں ہوتا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خطرہ ختم ہو گیا ہے۔
لیکن ہمیں معلوم کیسے ہو۔ حکومت صاف طور پر پوری بات بتاتی نہیں اور بےچارے ٹی وی چینل پوچھتے نہیں، انہیں لگتا ہے کہ جب حکومتی ذرائع غیر ضروری باتیں بتانے میں دیر نہیں لگاتے تو ضروری بات کیوں چھپائیں گے۔ اس لیے وہ سکون سے بیٹھ کر ان خبروں پر فوکس کرتے ہیں جن سے ان کا اور ان کے سامعین کا دل لگا رہے۔
اگر چین نہیں تو ہو سکتا ہے کہ کشمیر میں وہاں باہر سے آکر کام کرنے والوں کو نشانہ بنایا جانا حکومت کے لیے ایک بڑا درد سر ہو۔
اکتوبر میں وہاں حالات کافی خراب رہے ہیں اور اخبار والے ہی کہہ رہے ہیں کہ کشمیر میں باہر سے آکر کام کرنے والوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جن لوگوں کو کشمیر کی تاریخ معلوم ہے انہیں یاد ہوگا کہ نوے کے عشرے میں وہاں سے کشمیری پنڈتوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگنا پڑا تھا کیونکہ انہیں نشانہ بنایا جا رہا تھا۔
تو کیا تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟ کیا اب لوگ کشمیر جا کر کام کرنے سے ڈریں گے اور جو وہاں ہیں وہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے؟

وادی کشمیر میں غیر ریاستی ورکرز کو خاص طور پر ہدف بنایا جا رہا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

لیکن اگر یہ واقعی بڑی خبر ہوتی تو ٹی چینل اس کے ہر پہلو کا پوسٹ مارٹم کر رہے ہوتے اور ظاہر ہے کہ جب ہر پہلو پر بات ہوتی تو یہ سوال بھی زیر غور آتا کہ حکومت کی کشمیر پالیسی آخر ہے کیا؟
کیا واقعی اس مسئلے کو سیاسی اور فوجی طاقت کی مدد سے ختم کیا جاسکتا ہے یا حالات اس پالیسی کی وجہ سے اور بگڑ رہے ہیں۔
یا پھر سب سے بڑا مسئلہ اب بھی کورونا وائرس ہے یا بھوک؟
اس سال بھوک کے عالمی اشاریے میں انڈیا ایک سو ایک نمبر پر ہے، اپنے کئی چھوٹے ہمسایہ ممالک سے بھی پیچھے۔
یہ ان ممالک کی فہرست ہے جہاں غربت کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کو مناسب غذا نہیں مل پاتی۔ لیکن اگر لوگوں کو اچھی اور کافی غذا نہیں مل پاتی تو ظاہر ہے کہ مسئلے کی جڑ بے روزگاری ہوگی۔ ایسا تو کوئی نہیں ہوگا کہ کہے کہ میں کما تو ٹھیک ٹھاک لیتا ہوں لیکن بس گھومنے پھرنے اور کپڑوں پر اتنا خرچ ہو جاتا ہے کہ کھانے کے لیے پیسے نہیں بچتے۔ کئی مرتبہ سوچا ہے کہ پہلے کھانے پر فوکس کروں گا لیکن شوق مارنا بھی کہاں آسان ہے۔

بھوک کے عالمی اشاریے میں انڈیا ایک سو ایک نمبر پر ہے۔ فوٹو اے ایف پی

لیکن اگر حکومت یہ کہے کہ فہرست تیار کرنے والے ادارے نے غلط طریقہ کار استعمال کیا ہے تو بے چارے چینل کیا کرسکتے ہیں۔ ایک ارب چالیس کروڑ کی آبادی میں وہ کس کس سے جاکر معلوم کریں گے کہ آپکو مناسب خوراک مل رہی ہے کہ نہیں۔
اور وہ عظیم پریمجی یونیورسٹی کی یہ رپورٹ بھی کیسے مان لیں کہ کووڈ کی وجہ سے دو سو کروڑ سے زیادہ لوگ واپس غربت کا شکار ہوگئے ہیں۔
اب سیدھی سی بات ہے۔ اگر کام کاج نہیں ہے تو یہ آپ کا اپنا مسئلہ ہے، محنت کرنے سے آپ کو کس نے روکا ہے۔ خوب محنت کیجیے، خوب کمائیے اور خوب خرچ کیجیے۔ خود پر بھی اور دوسروں پر بھی۔
مختصر یہ کہ مسائل کی فہرست لمبی ہے اور یہ طے کرنا آسان نہیں کہ چینل کس خبر پر فوکس کریں۔ کچھ چینل ایسی خبروں پر فوکس نہیں کرنا چاہتے جن سے ان کے خیال میں دیش کی بدنامی ہوتی ہے اور کچھ اپنی عقل پر چلنے سے بچتے ہیں۔ اگر سوچنے کا کام آپ کے لیے کوئی دوسرا کر رہا ہو تو کیوں اپنے دماغ پر زور ڈالا جائے۔
اس لیے شاید آپ کو نہ معلوم ہو کہ گزشتہ برس گلوان میں چینی فوج کے ساتھ خونریز چھڑپ کے بعد کچھ ہندوستانی فوجی چین کے قبضے میں تھے، کہ چین کو متنازع سرحد سے پیچھے ہٹنے پر مائل کرنے کی کوششیں بڑی حد تک ناکام رہی ہیں، کہ انڈیا کی افغانستان پالیسی بکھر گئی ہے۔۔۔ یا یہ کہ گجرات کے مندھرا بندرگاہ سے برآمد کی جانےوالی تین ٹن ( تین ہزار کلو) ہیروئن کس نے منگائی تھی اور آگے کہاں جانی تھی۔

آریان خان کو منشیات رکھنے کے جرم میں گرفتار کیا ہوا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

بتایا جاتا ہے کہ بین الاقوامی منڈیوں میں ضبط شدہ ہیروئن کی قیمت ڈھائی ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ کتنے لوگ ہیں جنہیں اس طرح کی رقم تک رسائی حاصل ہے؟ اس کیس میں ڈرگ مافیا ملوث ہوگا یہ تو طے ہے لیکن یہ کون لوگ ہیں اور ان کے نام اب تک سامنے کیوں نہیں آئے ہیں؟
لیکن اس خبر پر وقت ضائع کرنے کا کیا فائدہ ہے جب شاہ رخ خان کے بیٹے آریان کی زندگی سنواری جا سکتی ہے۔
آپ کو یہ ضرور معلوم ہوگا کہ آرین کے دوست کے پاس سے دس گرام چرس ملی تھی یا بیس اور یہ کہ آرین مبینہ طور پر منشیات کا دھندا کرنے والے ایک بین الاقوامی گروہ کا حصہ ہیں۔ کچھ سشانت سنگھ راج پوت کی گرل فرینڈ رہیا چکرورتی کی ہی طرح۔ اور ٹھوس ثبوت؟ ٹھوس ثبوت کی کیا ضرورت ہے۔ واٹس ایپ پیغامات سے کام تو چل ہی رہا ہے۔

شیئر: