Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تعلیم، موسیقی اور سماج کے لیے زندگی مختص کر دینے والی زرینہ بلوچ

جی جی زرینہ کا انتقال 2005 میں ہوا تھا۔ (فوٹو: سندھ ٹی وی)
رسول بخش پلیجو اور جی ایم سید سیاسی حریف تھے، سندھ کی مزاحمتی سیاست میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ دونوں پارٹیوں کے کارکنان اختلاف میں پرتشدد ہو جاتے، تاہم تب بھی مفاہمت، برداشت اور ہم آہنگی کا عالم یہ تھا کہ رسول بخش پلیجو کی شریک حیات مخالف پارٹی کے جلسوں میں شرکت کرتیں اور مزاحمتی گیت گاتی تھیں۔
یہ شخصیت تھیں معروف سیاسی و سماجی رہنما، موسیقار و گلوکار زرینہ بلوچ جنہیں سندھ ’جی جی‘ کے نام سے جانتا ہے، یعنی اماں جی۔
حیدرآباد ریڈیو کی نئے صداکاروں و موسیقاروں کی تلاش نے زرینہ بلوچ کو فوک گلوکاری میں متعارف کروایا، وہ نہ صرف گائیک بلکہ شاعر و موسیقار بھی تھیں۔
سینیئر صحافی قاضی آصف کے مطابق حیدرآباد ریڈیو میں ثقافتی وسماجی اور فنون کی سرگرمیوں میں سرگرم زرینہ بلوچ کی ملاقات اپنے زمانے کے قوم پرست رہنما رسول بخش پلیجو کی ریڈیو سٹیشن میں آمد ورفت کے دوران ہوئی۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا اور آئے روز ہونے والی ملاقاتوں میں دونوں کے مابین ثقافت و سیاست پر تبادلہ خیالات ہوتا۔
زرینہ بلوچ کی پہلی شادی کم عمری میں ہوئی، اس شادی سے ان کی دو اولادیں تھیں۔ تاہم انہیں تعلیم اور موسیقی کا شوق تھا جس کے باعث انہوں نے علیحدگی اختیار کر لی۔
پھر جب قسمت نے انہیں ریڈیو حیدرآباد میں رسول بخش پلیجو سے ملوایا تو ان کی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا۔
رسول بخش پلیجو سے زرینہ بلوچ کی شادی 1964 میں ایوب دور میں ہوئی۔ بعد ازاں ایوب حکومت کے خلاف احتجاج میں زرینہ بلوچ پیش پیش رہیں، اور جیل بھی کاٹی۔

سیاسی و سماجی رہنما، موسیقار و گلوکار زرینہ بلوچ کو  سندھ ’جی جی‘ کے نام سے جانتا ہے۔ (فوٹو: قومی عوامی تحریک )

رسول بخش پلیجو کے صاحبزادے نور نبی پلیجو کے مطابق ان کے والد سے شادی سے قبل ہی زرینہ بلوچ کی بطور شاعر و گلوکارہ ایک پہچان بن گئی تھی۔
پہلے شوہر سے علیحدگی کے بعد زرینہ بلوچ نے اعلٰی تعلیم حاصل کی اور تدریس کے شعبے سے وابستہ ہو گئیں۔ وہ جامشورو کی سندھ یونیورسٹی سے متصل ماڈل سکول میں بطور استانی تعینات رہیں۔
انہوں نے اپنی ثقافتی اور سماجی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں اور بے شمار گیت گائے۔ ان کے ریکارڈ کروائے گئے صوفی کلام اور مزاحمتی ترانے آج بھی سننے والوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔
نور نبی پلیجو زرینہ بلوچ کو اپنی پہلی استاد مانتے ہیں۔
’ہمیں زندگی کے بہت سے مواقع پر ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ یہ زرینہ بلوچ کی سیاسی آگہی کا مظہر تھا کہ انہوں نے مزاحمتی شاعری کو اپنی گائیکی میں اپنایا اور اپنے فن کو اپنے پیغام کی ترویج کے لیے اپنایا۔ زرینہ بلوچ کا پیغام تمام سیاست سے بالاتر ہو کر انسان دوستی پر منحصر تھا، یہی وجہ ہے کہ انہیں جی جی کا خطاب ملا۔‘

زرینہ بلوچ کے ریکارڈ کروائے گئے صوفی کلام اور مزاحمتی ترانے آج بھی سننے والوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ (فوٹو: فائل)

نور نبی بتاتے ہیں کہ رسول بخش پلیجو سیاسی سرگرمیوں میں زرینہ بلوچ کو ساتھ رکھتے تھے، جی جی کی سیاسی تربیت انہوں نے ہی کی۔ زرینہ بلوچ ان کی پارٹی کی ثقافتی ترجمان تھیں، ہر جلسے میں ان کے ساتھ ہوتی تھیں۔
قاضی آصف زرینہ بلوچ کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ واحد خاتون تھیں جنہوں نے تن تنہا الیکشن بیلٹ میں سندھی زبان کی شمولیت کے حق میں احتجاجی دھرنا دیا تھا۔ بعد ازاں دیگر سیاسی شخصیات بھی اس احتجاج میں شامل ہوئیں اور بالاآخر یہ مطالبہ منظور ہوگیا۔
معروف محقق اور لکھاری اختر بلوچ کہتے ہیں کہ جی جی زرینہ بلوچ صرف سندھیوں کی نہیں بلکہ پورے ملک کے لیے مزاحمتی سیاست کا استعارہ تھیں، انہوں نے اردو اور بلوچی زبان میں بھی گیت اور نغمے گائے تا کہ ان کا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔
’وہ سیاسی جماعتوں کی تفریق سے بالاتر ہو کر ہر جماعت کے جلسے میں شریک ہوتی تھیں، اور اس حوالے سے کسی کو بھی کبھی اعتراض نہیں ہوا۔ جی جی کو عوام میں میں بے پناہ مقبولیت حاصل تھی اور ان کے پائے کا کوئی فنکار اور شخصیت سندھ میں نہیں گزرا۔‘

رسول بخش پلیجو سے زرینہ بلوچ کی شادی 1964 میں ایوب دور میں ہوئی۔ (فائل فوٹو)

قاضی آصف سمجھتے ہیں کہ یہ سندھ کی برداشت کی سیاست کا اثر ہے کہ ایک معروف سیاسی رہنما کی بیگم ہونے کے باوجود زرینہ بلوچ مخالف سیاسی جلسے میں شرکت بھی کرتیں اور پرفارم بھی، لیکن کبھی رسول بخش پلیجو یا ان کی پارٹی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔
اختر بلوچ کے مطابق موجودہ دور میں کوئی ایسی سیاسی شخصیت نہیں جو جی جی زرینہ بلوچ کے قد کے برابر ہو، اور شاید اب آج کا سیاسی ماحول بھی اتنا وضع دار نہیں رہا۔
جی جی زرینہ کا انتقال 2005 میں ہوا، ان کی وفات کو 16 برس بیت گئے لیکن سندھ کے لوگ ان کی انسان دوست سماجی سیاست کے آج بھی معترف ہیں۔

شیئر: