روئٹرز کو ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ’افغانستان کے عبوری وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے مذاکرات میں مدد کی۔‘
یاد رہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو امریکہ نے غیرملکی دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال رکھا ہے اور یہ تنظیم 2007 سے پاکستان میں حملے کر رہی ہے۔
گزشتہ مہینے کے اوائل میں وزیراعظم عمران خان نے ایک عالمی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ حکومت کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے کچھ گروپوں کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے اور اگر وہ ہتھیار ڈال دیں تو انھیں معاف کیا جا سکتا ہے۔
ٹی ٹی پی کمانڈر نے روئٹرز کو بتایا کہ ’ہم مذاکرات کے فوری نتائج کے بارے میں پُرامید نہیں ہیں، لیکن ہماری قیادت نے کہا ہے کہ اگر وہ مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں تو قیدیوں کو رہا کریں۔‘
تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے محمد خراسانی نے کہا کہ ٹی ٹی پی ’نے کبھی بامعنی مذاکرات سے انکار نہیں کیا۔ البتہ آن دی گراؤنڈ فی الحال کچھ بھی نہیں ہےـ‘
گزشتہ ماہ عمران خان نے کہا تھا کہ ’اصل میں پاکستانی طالبان کے کچھ گروپس امن اور مفاہمت کے لیے پاکستان کے ساتھ بات کرنا چاہتے ہیں اور ہم بھی کچھ گروپوں کے ساتھ بات کر رہے ہیں۔‘
خیال رہے پاکستان کے صدر عارف علوی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ستمبر کے مہینے کہا تھا کہ اگر ٹی ٹی پی ہتھیار ڈال دے تو حکومت اس کے ارکان کو عام معافی دینے کے لیے تیار ہے۔
اس وقت وزیراعظم عمران خان کے مذاکرات کے حوالے سے بیان پر تحریک طالبان پاکستان نے اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ ٹی ٹی پی ایک منظم تحریک ہے جو گروپ بندی کا شکار نہیں، تحریک کی صرف ایک اجتماعی پالیسی ہے اس پالیسی سے کوئی بھی انحراف نہیں کر سکتا۔