یوں لگ رہا تھا کہ مفاہمت ہوگئی ہے، حکومت انتخابی اصلاحات سے متعلق قانون سازی اپوزیشن کے ساتھ مشاورت کے لیے موخر کرنے پر رضا مند ہوچکی ہے۔
ایوان کا ماحول ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ کسی چوکس سپاہی کی طرح تیار بیٹھے ارکان بھی لابیوں میں جانے لگے تھے اور کوریج کرنے والے صحافیوں کو بھی دن کا کھانا کھانے کا موقع میسر آچکا تھا۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے خطاب کے بعد شاہ محمود قریشی، پھر بلاول بھٹو زرداری، مولانا اسعد محمود اور محسن داوڑ کی تقاریر اور حکومت کو بار بار مشاورت پر رضامندی کی یقین دہانی اور سپیکر کو ان کے وعدوں کی یاددہانی کی تکرار نے کچھ ایسا تاثر دیا کہ گذشتہ کئی دنوں سے سیاسی گہما گہمی بلکہ گرما گرمی کا شکار ماحول اچانک سے یخ ہوتا دکھائی دیا۔
مزید پڑھیں
-
ق لیگ کو حکومت سے تحفظات،’ہم ساتھ نبھا رہے ہیں یہ نہیں نبھا رہے‘Node ID: 618126
ایسا گمان کیوں نہ ہوتا کہ بابر اعوان نے سپیکر کی جانب سے بل پیش کرنے کی اجازت سے متعلق تحریک پیش کرنے کا کہا تو انھوں نے کہا کہ معلوم ہوا کہ اپوزیشن اس پر بات کرنا چاہتی ہے تو ہم بھی بل موخر کرنے کے لیے تیار ہیں۔
وزیراعظم ایوان میں پہنچے تو حکومتی ارکان بھی اپنا ایزی ٹائم ادھورا چھوڑ کر واپس اپنی نشستوں پر آگئے۔ اپوزیشن ارکان کی تقاریر کے بعد سپیکر نے بابر اعوان کو بل پیش کرنے کا کہہ دیا۔ ایوان کا ماحول ایک بار پھر سکتے میں آگیا۔
سپیکر کی دعوت پر بابر اعوان نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کا وہی بل پیش کیا جسے وہ پہلے موخر کرنے کا کہہ چکے تھے۔ اپوزیشن نے شور مچانا شروع کر دیا تھا۔
رائے شماری کا موقع آیا تو گذشتہ کئی ہفتوں سے ٹینشن کا شکار حکومت کو قرار آیا کہ ان کی برتری ثابت ہو چکی تھی اور سرپرائز دینے کا دعویٰ کرنے والی اپوزیشن کا امتحان شروع ہو چکا تھا۔
440 کے ایوان میں حکومت کو 221 جبکہ اپوزیشن کو 203 کی حمایت ملی۔ سپیکر ووٹ کاسٹ نہیں کرسکتے۔ سینیٹ میں اپوزیشن کے ان چھ ارکان (دلاور خان گروپ) جن کی حمایت سے یوسف رضا گیلانی قائد حزب اختلاف بنے تھے نے حکومت کو ووٹ دیا۔
اس برتری کے نتیجے میں حکومت نے 33 بل منظور کر لیے جن میں اپوزیشن کے ایک رکن کا نجی بل بھی شامل ہے۔

مجموعی طور پر اپوزیشن کے 10 ارکان جبکہ حکومت کے پانچ ارکان غیر حاضر تھے۔ اپوزیشن کے غیر حاضر ارکان میں سید نوید قمر، نواب یوسف تالپور، سینیٹر سکندر میندھرو، نواب اختر مینگل اور علی وزیر شامل تھے۔
علی وزیر جو کہ گرفتار ہیں سپیکر نے ان کے پروڈکشن آرڈرز جاری نہیں کیے تھے۔ اس پر محسن داوڑ کے علاوہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے بھی احتجاج کیا۔
حکومتی برتری ثابت ہونے پر حزب اختلاف نے گنتی کے عمل کو چیلنج کرتے ہوئے احتجاج شروع کر دیا اور سپیکر ڈائس کے سامنے جمع ہو کر نعرے بازی شروع کر دی۔ سپیکر کو آزاد کرو، ووٹ چوری نامنظور اور گو عمران گو کے نعرے بلند ہونے لگے۔
اس احتجاج کے دوران بہت سے مناظر دیکھنے کو ملے۔ اپوزیشن کی جانب سے ن لیگ کے مرتضیٰ جاوید عباسی کی کبھی مراد سعید اور کبھی شہریار آفریدی سے تو تڑاک ہوتی رہی۔ لوہا گرم دیکھ کر عامر لیاقت بھی حاضری لگانے پہنچ گئے اور مرتضٰی جاوید عباسی سے الجھ پڑے۔
