Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعظم کی آمد سے قبل اپوزیشن کی تقاریر، پھر دھڑا دھڑ قانون سازی

یوں لگ رہا تھا کہ مفاہمت ہوگئی ہے، حکومت انتخابی اصلاحات سے متعلق قانون سازی اپوزیشن کے ساتھ مشاورت کے لیے موخر کرنے پر رضا مند ہوچکی ہے۔
 ایوان کا ماحول ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ کسی چوکس سپاہی کی طرح تیار بیٹھے ارکان بھی لابیوں میں جانے لگے تھے اور کوریج کرنے والے صحافیوں کو بھی دن کا کھانا کھانے کا موقع میسر آچکا تھا۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے خطاب کے بعد شاہ محمود قریشی، پھر بلاول بھٹو زرداری، مولانا اسعد محمود اور محسن داوڑ کی تقاریر اور حکومت کو بار بار مشاورت پر رضامندی کی یقین دہانی اور سپیکر کو ان کے وعدوں کی یاددہانی کی تکرار نے کچھ ایسا تاثر دیا کہ گذشتہ کئی دنوں سے سیاسی گہما گہمی بلکہ گرما گرمی کا شکار ماحول اچانک سے یخ ہوتا دکھائی دیا۔
ایسا گمان کیوں نہ ہوتا کہ بابر اعوان نے سپیکر کی جانب سے بل پیش کرنے کی اجازت سے متعلق تحریک پیش کرنے کا کہا تو انھوں نے کہا کہ معلوم ہوا کہ اپوزیشن اس پر بات کرنا چاہتی ہے تو ہم بھی بل موخر کرنے کے لیے تیار ہیں۔
وزیراعظم ایوان میں پہنچے تو حکومتی ارکان بھی اپنا ایزی ٹائم ادھورا چھوڑ کر واپس اپنی نشستوں پر آگئے۔ اپوزیشن ارکان کی تقاریر کے بعد سپیکر نے بابر اعوان کو بل پیش کرنے کا کہہ دیا۔ ایوان کا ماحول ایک بار پھر سکتے میں آگیا۔
 سپیکر کی دعوت پر بابر اعوان نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کا وہی بل پیش کیا جسے وہ پہلے موخر کرنے کا کہہ چکے تھے۔ اپوزیشن نے شور مچانا شروع کر دیا تھا۔
رائے شماری کا موقع آیا تو گذشتہ کئی ہفتوں سے ٹینشن کا شکار حکومت کو قرار آیا کہ ان کی برتری ثابت ہو چکی تھی اور سرپرائز دینے کا دعویٰ کرنے والی اپوزیشن کا امتحان شروع ہو چکا تھا۔
 440 کے ایوان میں حکومت کو 221 جبکہ اپوزیشن کو 203 کی حمایت ملی۔ سپیکر ووٹ کاسٹ نہیں کرسکتے۔ سینیٹ میں اپوزیشن کے ان چھ ارکان (دلاور خان گروپ) جن کی حمایت سے یوسف رضا گیلانی قائد حزب اختلاف بنے تھے نے حکومت کو ووٹ دیا۔
اس برتری کے نتیجے میں حکومت نے 33 بل منظور کر لیے جن میں اپوزیشن کے ایک رکن کا نجی بل بھی شامل ہے۔

مشترکہ اجلاس میں حکومت نے 33 بل منظور کیے جن میں اپوزیشن کے ایک رکن کا نجی بل بھی شامل ہے (فوٹو: قومی اسمبلی سیکرٹریٹ)

مجموعی طور پر اپوزیشن کے 10 ارکان جبکہ حکومت کے پانچ ارکان غیر حاضر تھے۔ اپوزیشن کے غیر حاضر ارکان میں سید نوید قمر، نواب یوسف تالپور، سینیٹر سکندر میندھرو، نواب اختر مینگل اور علی وزیر شامل تھے۔
علی وزیر جو کہ گرفتار ہیں سپیکر نے ان کے پروڈکشن آرڈرز جاری نہیں کیے تھے۔ اس پر محسن داوڑ کے علاوہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے بھی احتجاج کیا۔
حکومتی برتری ثابت ہونے پر حزب اختلاف نے گنتی کے عمل کو چیلنج کرتے ہوئے احتجاج شروع کر دیا اور سپیکر ڈائس کے سامنے جمع ہو کر نعرے بازی شروع کر دی۔ سپیکر کو آزاد کرو، ووٹ چوری نامنظور اور گو عمران گو کے نعرے بلند ہونے لگے۔
اس احتجاج کے دوران بہت سے مناظر دیکھنے کو ملے۔ اپوزیشن کی جانب سے ن لیگ کے مرتضیٰ جاوید عباسی کی کبھی مراد سعید اور کبھی شہریار آفریدی سے تو تڑاک ہوتی رہی۔ لوہا گرم دیکھ کر عامر لیاقت بھی حاضری لگانے پہنچ گئے اور مرتضٰی جاوید عباسی سے الجھ پڑے۔

مشترکہ اجلاس میں مجموعی طور پر اپوزیشن کے 10 جبکہ حکومت کے پانچ ارکان غیر حاضر تھے (فوٹو: قومی اسمبلی سیکرٹریٹ)

ان قوانین کی منظوری کے لیے حکومت کو بہت سے پاپڑ بیلنا پڑے ہیں۔ پہلے پہل تو حکومت کو صرف اپوزیشن کا چیلنج درپیش تھا لیکن گذشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں قانون سازی پر دو بلوں کے منظوری میں حکومت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جس وجہ سے حکومت کو اپنی صفوں کو سیدھا کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس قانون سازی کے لیے وزیراعظم عمران خان نے اتحادی جماعتوں کے اعزاز میں ظہرانہ دیا تو ان کی اپنی جماعت کے 30 سے زائد ارکان غیر حاضر رہے۔ اس وجہ سے حکومت کو گذشتہ ہفتے بلایا گیا اجلاس موخر کرنا پڑا۔
ابھی اپنی جماعت کے ارکان سے رابطے نہ ہوئے تھے کہ اتحادیوں نے تعاون سے انکار دیا۔ وزیراعظم کو متعدد مرتبہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ ملاقاتیں کرنا پڑیں اور ان کی شرائط ماننا پڑیں تب جا کر وہ بمشکل تعاون پر تیار ہوئے۔
صرف یہی نہیں دوسری جانب ایوان کے باہر ایک دوسرے سے ناراض اپوزیشن ایوان میں اتنی متحد ہوئی ہے کہ شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری گذشتہ کئی دنوں سے ہمہ وقت ایک ساتھ ہی دکھائی دیتے رہے۔
سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حالیہ سیاسی بھونچال اسی دن تھم گیا تھا جس دن حکومت نے اپنے نمبر پورے کرنے کے بعد دوسری بار اجلاس بلا لیا تھا۔ تاہم اپوزیشن کی جانب سے ہونے والے دو اہم اعلانات کے بعد اس سیاسی میچ کا دوسرا ہاف جلد شروع ہونے والا ہے۔
اپوزیشن نے انتخابی اصلاحات سے متعلق قوانین کو عدالت میں چیلنج کرنے اور سپیکر کے خلاف عدم اعتماد لانے پر غور کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اور اب پارلیمانی راہداریوں میں وزیراعلیٰ بلوچستان کے بعد سپیکر قومی اسمبلی اور پھر چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریکوں کی سیریز کے بارے ہونے والی چہ مگوئیاں سنائی دے رہی ہیں۔

شیئر: