’اب سب کچھ ختم ہو گیا‘، افغانستان کی مڈل کلاس بھی غربت اور بھوک کا شکار
’اب سب کچھ ختم ہو گیا‘، افغانستان کی مڈل کلاس بھی غربت اور بھوک کا شکار
پیر 22 نومبر 2021 17:31
سابق افغان حکومت کے بجٹ کا زیادہ حصہ عالمی امداد سے پورا ہوتا تھا (فوٹو اے پی)
زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب فرشتہ سلیہی اور ان کا خاندان اچھی زندگی گزار رہا تھا۔ ان کے شوہر کی تنخواہ بہتر تھی اور وہ اپنے بچوں کو سکول بھیج سکتی تھیں۔
تاہم طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کے شوہر کی نوکری چلی گئی اور اب وہ بھی سینکڑوں دیگر افغان شہریوں کی طرح اقوام متحدہ کے ادارے کی طرف سے دی جانے والی خوراک اور رقم حاصل کرنے کے لیے رجسٹریشن کروانے کے لیے لائن میں کھڑی ہیں۔
فرشتہ سلیہی لائن میں اس لیے کھڑی ہیں کیونکہ ان کے خاندان کو زندہ رہنے کے لیے اس خوراک اور رقم کی بہت اشد ضرورت ہے۔
رجسٹریشن مکمل ہونے کے بعد نیوز ایجنسی اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ہمارا سب کچھ چلا گیا۔ ہمارا بہت برا حال ہے۔‘
ان کے ساتھ ان کی ایک 17 سالہ بیٹی فاطمہ بھی تھیں جن کو سکول سے نکالنا پڑا جس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے پاس بچی کو نجی سکول بھیجنے کی فیس نہیں تھی اور طالبان بھی نوجوان لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں اپنے لیے کچھ نہیں چاہتی۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے بچوں کو اچھی تعلیم ملے۔‘
طالبان کے قبضے کے کچھ ہی مہینوں میں فرشتہ سلیہی کی طرح کی مڈل کلاس اور معاشی طور پر مستحکم فیملیز اب سڑکوں پر آ گئی ہیں اور انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کے اگلے کھانے کا بندوبست کیسے ہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ خوراک نہ ہونے کی وجہ سے بڑھتی بھوک کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تین کروڑ 80 لاکھ کی آبادی میں سے 22 فیصد پہلے ہی قحط سالی کے قریب ہیں اور دیگر 36 فیصد کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے۔
افغانستان کی معاشی حالت امریکہ کی حمایت سے چلنے والی سابق حکومت کے وقت بھی خراب تھی اور وہ اکثر ملازمین کو تنخواہ نہیں دے سکتی تھی۔ یہ صورتحال کورونا کی وبا اور قحط سالی کے باعث بڑھنے والی قیمتوں کی وجہ سے ابتر ہو گئی ہے۔ اس سے قبل 2020 میں افغانستان کی آدھی آبادی غربت کی زندگی گزار رہی تھی۔
رہی سہی کسر طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بند ہونے والی عالمی امداد کی بندش نے نکال دی اور مڈل کلاس خاندانوں کے لیے مشکلات کھڑی ہو گئیں۔
سابق افغان حکومت کے بجٹ کا زیادہ حصہ عالمی امداد سے پورا ہوتا تھا اور اس کے بغیر طالبان بھی دینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ عالمی برادری نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے اور ان سے وسیع البنیاد حکومت اور انسانی حقوق کے احترام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
عالمی امداد سے چلنے والے پراجیکٹس بھی بند ہو گئے ہیں اور لوگوں کی نوکریاں بھی چلی گئی ہیں۔ ملکی بینکوں کا عالمی بینکنگ سسٹم سے رابطہ کٹ گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق افغانستان کی معیشت تین ماہ کے اندر 40 فیصد نیچے گئی ہے۔
ہسپتالوں میں غریب افغان خاندانوں کے کمزور اور خوراک کی کمی کا شکار بچے ہیں۔ جن خاندانوں کے معاشی حالات بہتر تھے اب ان کے لیے بھی راشن، کرایہ اور میڈیکل کے اخراجات برداشت کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
فرشتہ کے خاوند کابل میں ورلڈ بینک کے شعبہ لاجسٹک میں کام کرتے تھے اور ان کی تنخواہ 264 امریکی ڈالرز تھی، لیکن جب طالبان طاقت میں آئے تو ورلڈ بینک نے اپنا پراجیکٹ بند کر دیا۔
اب فرشتہ اپنے خاندان کا واحد سہارا ہیں۔ ان کے ہمسایوں کا اخروٹ کا کاروبار ہے۔ وہ انہیں اخروٹوں کے چھلکے اتارنے کا کام دیتے ہیں اور فرشتہ اسے مارکیٹ میں فروخت کرتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے شوہر سارا دن کام ڈھونڈنے کے لیے شہر میں گھومتے ہیں۔ ’اب کا ان کا کام سڑکیں ناپنا رہ گیا ہے۔‘
امریکہ اور دیگر امدادی ادارے اقوام متحدہ کے ذریعے انسانی امداد کے لیے رقم دے رہے ہیں تاکہ یہ پیسہ طالبان کے ہاتھ نہ لگ سکے۔
اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام، عالمی ادارہ صحت اور یونیسیف نظام صحت کو قائم رکھنے کے لیے ڈاکٹروں اور نرسز کی تنخواہیں دے رہے ہیں، جبکہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے تحت براہ راست خوراک اور کیش رقم دی جا رہی ہے۔
عالمی ادارہ خوراک کی ترجمان شیلے ٹھاکرال نے کہا کہ ’دیہات کے لوگ نہیں بلکہ شہروں کے لوگوں کو بھی امداد کی ضرورت ہے جو پہلی مرتبہ بھوک دیکھ رہے ہیں۔‘
گزشتہ ہفتے کابل میں سینکڑوں افراد 38 ڈالر نقد حاصل کرنے کے لیے لائن میں کھڑے تھے اور انہی میں ایک ناوریا سروری بھی تھیں جو ہایئر ایجوکیشن کی وزارت میں کام کرتی تھیں۔
طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد زیادہ تر خواتین کو گھر پر بٹھا دیا اور ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد انہیں تنخواہ نہیں ملی اور وہ اپنے تین بچوں کا کھانا پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ان کا 14 سالہ بیٹا سجاد پلاسٹک کی تھیلیاں بیچ کر تھوڑے بہت پیسے کماتا ہے اور ناوریا سروری کا کہنا ہے کہ ان کا زیادہ تر انحصار ہمسایوں کی امداد پر ہے۔
سمیم حسن زئی نے کہا کہ گذشتہ برس ان کے والدین کورونا کے باعث انتقال کر گئے اور اس کے بعد ان کی زندگی بدل کر رہ گئی ہے۔ وہ کلچرل منسٹری میں کام کرتے تھے، لیکن انہیں طالبان کی حکومت آنے کے بعد کوئی تنخواہ نہیں ملی۔
’میرے پاس نوکری تھی۔ والدہ کے پاس نوکری تھی اور میرے والد کا اپنا کام تھا۔ ہمارے پاس پیسہ تھا۔ اب سب کچھ ختم ہو گیا۔‘