Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دلی: نریندر مودی بچپن میں چائے نہیں بیچتے تھے؟

گذشتہ دو مہینوں میں منور فاروقی کے 12 شو کینسل کیے جا چکے ہیں (فوٹو اے ایف پی)
اگر آپ کو ہنسنے کا شوق ہو تو ضرور ہنسیے، لیکن کوشش یہ کیجیے گا کہ کسی لطیفے پر نہ ہنسیں اور کسی کو پتا نہ چلے۔ ویسے بھی اب یہ نوبت آ ہی گئی ہے کہ لوگ چھپتے چھپاتے لطیفے سنا کریں گے۔
کامیڈین ہو سکتا ہے کہ سبزی کا ٹھیلا لگانا شروع کر دیں، کیونکہ ادھر ادھر کی باتیں کر کے آپ کا دل بہلانے کے علاوہ انہیں آتا ہی کیا ہے؟ اب بس یہ مت کہیے گا کہ سبزی کا ٹھیلا لگانا کب سے بری بات ہوگئی؟ کیا وزیراعظم نریندر مودی بچپن میں چائے نہیں بیچتے تھے؟
بھائی بیچتے تھے، اور اس میں کوئی برائی بھی نہیں تھی، اگر آپ چائے بیچنے کے بعد وزیراعظم بنیں تو واقعی بڑی بات ہے، لیکن وزیراعظم کا عہدہ چھوڑنے کے بعد بھی اپنے کسی کو چائے بیچتے ہوئے دیکھا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ سبزی کا ٹھیلا لگانے والا مستقبل میں کامیڈین بننا چاہتا ہو اور بن بھی جائے لیکن کسی کامیڈین کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ زندگی میں میرا خواب بس یہ ہے کہ ٹھیلا لگا کر سبزی بیچ سکوں؟
انڈین کامیڈین منور فاروقی آج شاید یہ ہی سوچ رہے ہوں گے۔ گذشتہ دو مہینوں میں ان کے 12 شو کینسل کیے جا چکے ہیں، منسوخ کیا جانے والا آخری شو بنگلور میں ہونا تھا، اس شہر میں جو انڈیا میں انفارمیشن ٹکینالوجی کا گڑھ مانا جاتا ہے، جہاں کام کرنے والے سافٹ ویئر انجینیئر آپ کی ڈیجیٹل دنیا چلاتے ہیں۔
لیکن وہاں مقامی پولیس کو لگا کہ اگر شو ہوا تو امن و قانون کے لیے خطرہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے منتظمین کو مشورہ دیا گیا کہ وہ شو کینسل کر دیں۔ منتظمین بے چاروں کی کہاں ہمت کہ پوچھ پاتے کہ اگر خطرہ ہو سکتا ہے اور آپ کو معلوم بھی ہے، تو کیوں نہ وہ کام کریں جوآپ کو کرنا چاہیے: ان لوگوں کو گرفتار کر لیجیے جو دھمکیاں رے رہے ہیں اور آڈیٹوریم کے اردگرد سکیورٹی بڑھا دیجیے۔ اس لیے انہوں نے مشورہ ماننا ہی بہتر سمجھا۔
پولیس کی بات بھی سمجھ میں آتی ہے۔ لوگ ہنستے تو ہوش میں کہاں رہتے ہیں، اس لیے بات بگڑنے کا خطرہ تو رہتا ہی ہے۔ اسی لیے لطیفہ سنتے ہی نہیں ہنسنا چاہیے، پہلے اس کے مضمرات پر غور کر لیں اور جب یقین ہو جائے کہ اس میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جو کسی کو گراں گزر سکتی ہو تو پھر جتنا چاہیں ہنسیں یا فنکار کو اشارے سے بتا دیں کہ ہم ہنس نہیں سکتے، لیکن آپ یہ سمجھیں کہ ہم ہنس رہے ہیں۔
منور فاروقی پر الزام یہ ہے کہ انہوں مدھیہ پردیش کے اندور شہر میں اپنے ایک شو کے دوران ہندو دیوی دیوتاؤں کے بارے میں کچھ ایسے لطیفے سنائے تھے جن سے ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی۔ یا یوں کہیے کہ پہنچ سکتی تھی کیونکہ شو کبھی ہوا نہیں اور لطیفے کبھی سنائے ہی نہیں گئے۔ مطلب یہ کہ اگر یہ شو ہو جاتا، اور اس میں منور فاروقی ایسا کوئی لطیفہ سنا دیتے تو یہ بالکل ممکن ہے کہ وہاں موجود لوگوں میں سے کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچ سکتی تھی۔ اور ہاں منور پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے اپنے شوز میں انڈیا کے وزیر داخلہ امیت شاہ کے بارے میں بھی کوئی ایسی ویسی بات کہی تھی۔
بھائی مذاق کرنے کے لیے کوئی اور نہیں ملا۔ آپ کو معلوم ہے ناں کہ امیت شاہ بہت سنجیدہ طبعیت کے مالک ہیں، وہ کسی کے چھچھورے لطیفوں پر نہیں ہنستے، انہیں ملک چلانا ہے صرف آپ کا کاروبار نہیں۔ مذاق کے لیے سوا ارب کی آبادی میں سے کسی اور کو ڈھونڈ لیتے۔

پولیس نے شو کے منتظمین اور ظاہر ہے کہ منور فاروقی کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا (فوٹو انڈیا ٹوڈے)

خیر اندور میں صرف اتنا ہوا تھا کہ کچھ ہندو شدت پسندوں نے پہلے ہی جا کر شو کو روک دیا اور پولیس نے شو کے منتظمین اور ظاہر ہے کہ منور فاروقی کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔
بے چاروں نے کئی ہفتے جیل میں گزارے پھر کہیں سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد ضمانت ملی۔ اور مقدمہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔
اب جہاں کہیں ان کا شو ہوتا، مقامی ہندو تنظیمیں اسے رکوا دیتی ہیں۔ اس لیے منور فاروقی نے اب کہا ہے کہ بہت ہو گیا، نفرت جیت گئی آرٹسٹ ہار گیا۔ بس بہت ہوا۔ اور ان کے اس بیان سے مطلب یہ نکالا جا رہا ہے کہ انہوں نے کامیڈی کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
خیر وہ ابھی جوان ہیں، آگے اپنی زندگی میں جو کرنا چاہیں، ہماری دعا ہے کہ انہیں کامیابی ملے۔
لیکن یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ انڈیا میں طنز و مزاح کی گنجائش اتنی کم ہوگئی ہے۔ آپ نے ویر داس کا نام تو سنا ہی ہوگا، وہ انگریزی میں پرفارم کرتے ہیں اور کامیڈی کی دنیا کے بڑے کلاکار ہیں۔ چند روز قبل انہوں نے امریکہ میں اپنے ایک شو کے دوران ہندوستانی معاشرے کے ان تضادات کا ذکر کیا جو کسی بھی سوچنے سمجھنے والے انسان کو پریشان کرتے ہوں گے۔ انہوں نے کیا کہا ( آئی کم فرام ٹو انڈیاز) یہ تو آپ یو ٹیوب پر سن لیجیے گا، لیکن پیغام یہ تھا کہ ہندوستان میں بہت کچھ ایسا ہو رہا ہے جو ہونا نہیں چاہیے۔
اس کے بعد سے ان کے خلاف مقدمے قائم کیے جا رہے ہیں، کسی نے تو بغاوت کا مقدمہ قائم کرنے کی بھی بات کہی، اور بی جے پی اور اس سے نظریاتی مماثلت رکھنے والی تنظیموں کے ساتھ کانگریس کے ایک ترجمان نے بھی کہا کہ ویر داس نے ایک عالمی سٹیج پر ہندوستان کو بدنام کیا ہے۔

تو کیا مزاحیہ فنکاروں کو کچھ بھی کہنے کی اجازت ہونی چاہیے؟ (فوٹو انڈین ٹائمز)

ہمشیہ کی طرح آج کل کے زمانے میں بھی صرف دو طرح ہی کے لطیفے ہوتے ہیں۔ اچھے اور برے۔ اچھے لطیفے پر خود بہ خود ہنسی آجاتی ہے برے پر آپ کی خاموشی سے کامیڈین کو لگتا ہے کہ آج سبزی کا ٹھیلا ہی لگا لیا ہوتا تو ٹھیک رہتا۔
تو کیا مزاحیہ فنکاروں کو کچھ بھی کہنے کی اجازت ہونی چاہیے؟ انہیں کوئی سزا نہ دی جائے؟
اس کا آسان جواب صرف یہ ہے کہ اچھے لطیفے پر خود بھی ہنسیے اور ہمیں بھی ہنسنے دیجیے، برے پر خاموش رہیے، کسی بھی فنکار کے لیے اس سے بڑی کوئی سزا نہیں ہوتی۔
لیکن اگر ہمیں ہنسی آئے تو ہمیں ہنسنے دیجیے۔ جتنی بار آپ منور فاروقی کا شو کینسل کراتے ہیں، دنیا میں لوگ پوچھتے ہیں کہ ویر داس نے جو کہا اس میں غلط کیا تھا؟

شیئر: