Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماریہ میمن کا کالم: انتہا پسندی، بات کہاں رکے گی؟  

وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ واقعے میں ملوث افراد کو قانون کے تحت سخت سزا دی جائے گی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سیالکوٹ کے واقعے نے ایک بار پھر معاشرے میں تشدد، جارحیت اور انتہا پسندی کے رجحانات کو عیاں کر دیا ہے۔
کارخانے میں بنیادی تنخواہ پر کام کر کے اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے والے نیم خواندہ ورکرز اس حد تک جا سکتے ہیں کہ ایک غیر ملکی مینیجر کو جو ان کی زبان بھی نہیں سمجھتا، ڈنڈوں کے ساتھ ہلاک کریں اور پھر اس کی لاش کو آگ لگا دیں۔
اس سے پہلے گوجرہ، جوزف کالونی، قصور، مردان اور دیگر شہروں میں متعدد ایسے واقعات ہو چکے ہیں۔ ان واقعات میں جان لیوا تشدد کرنے والے ملزم کوئی تربیت یافتہ دہشت گرد نہیں بلکہ روزی روٹی کمانے والے عام شہری تھے۔ سوال یہ ہے کہ ان عام شہریوں میں یہ انتہا پسندی کیسے سرایت کر گئی اور یہ بھی کہ اب بات کہاں رُکے گی؟  
انتہا پسندی کا رجحان صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے۔ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ملکوں سے لے کر ترقی پذیر معاشروں تک اکیسویں صدی میں انتہا پسندی ایک نئے رخ کے ساتھ سامنے آئی ہے۔
ایک طرف غربت سے معاشی حالات دگرگوں ہیں اور دوسری طرف اکثریتی معاشروں میں شناخت کا بحران نمودار ہوا ہے۔ اس شناخت کے بحران کا فائدہ ان سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں نے اٹھایا جو کہ روایتی طور پر سیاست اور اقتدار سے باہر تھے۔
اس کے نتیجے میں اکثریت میں مظلومیت کا تاثر ابھارا گیا اور اس خود ساختہ مایوسی اور بحران کا مداوا تشدد اور انتہا پسندی سے کیا گیا۔
پاکستان میں یہ انتہا پسندی ہر شکل میں سامنے آئی: کبھی عقیدے کی بنیاد پر اور کبھی قومیت کو سامنے رکھ کر۔ ہر دو صورتوں میں  تشدد کے راستے کی توجیہات ڈھونڈی گئیں اور انتہا پسندی کا اگر ادراک بھی کیا گیا تواس کو رد عمل کا نام دیا گیا۔  
دنیا اور خصوصاً پاکستان کے ہمسایہ ملک میں جو ہو رہا ہے اس کی ہمہ وقت مذمت کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہم اس خیال میں بھی ہیں کہ پاکستان میں یہ انتہا پسندی مین سٹریم نہیں ہے۔ ان مسلسل واقعات کے بعد یہ خوف بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ خیال خام خیالی نہ ثابت ہو۔

سیالکوٹ واقعے میں پولیس بروقت نہیں پہنچی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان واقعات کے نتیجے میں بین الاقوامی طور پر جو اثرات ہوتے ہیں وہ اپنی جگہ مگر اس کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی اثرات تو ہر شہری پر پڑ رہے ہیں۔
کیا اس طرح کے واقعات کے بعد سیاحت میں اضافہ ہو سکتا ہے، کیا بیرونی سرمایہ کاری کو ترویج مل سکتی ہے اور کیا پاکستان کا سیاسی ماحول تشدد سے پاک رہ سکتا ہے؟ اگر ایک پارٹی اپنے مخالف حریف پر ایسا الزام لگا دے جس سے اس کی جان ہی خطرے میں پڑ جائے تو ایسے ماحول میں تعمیری اور مثبت سیاست کیسے ہو سکے گی؟  
ان انتہا پسندانہ رجحانات کو ہوا تو کچھ عرصے سے مل رہی تھی مگر لگتا تھا کہ پاکستان میں بڑا مسئلہ دہشت گردی اور بد امنی ہے۔
حکومت کا دعوٰی ہے اس دہشت گردی کو بیرونی مدد بھی حاصل تھی اور اس کی سپورٹ میں بین الاقوامی حالات کا بھی کردار تھا۔

سری لنکن حکومت اور پریانتھا کمارا کے خاندان نے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ہمارے ہاں یہ بھی سوچ تھی کہ جب دہشت گردی کا خاتمہ ہو گا تو اس کے بعد ملک میں عام طور پر بدامنی کا بھی خاتمہ ہو جائے گا۔
اسی دوران ایسے انتہا پسندانہ عناصر نے آہستہ آہستہ جگہ بنائی جنہوں نے پہلے سسٹم کو باہر سے چیلنج کیا۔ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے میں جس دور اندیشی، اتفاق اور جرات کی ضرورت تھی وہ ہم میں موجود نہیں تھی بلکہ ابھی تک بھی سامنے نہیں آئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کا معاشرتی ڈھانچہ اب ان عناصر کے سامنے یرغمال بنتا جا رہا ہے۔ 
سوال یہ بھی ہے کہ اس انتہاپسندی کو کیسے کنٹرول کیا جائے؟
اس کا جواب تو رول آف لا اور قانون کے نفاذ میں ہے۔ اسی طرح کے خیالات کا اظہار جناب وزیر اعظم صاحب بھی کرتے رہتے ہیں کہ قوموں کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار قانون کی عملداری میں ہے۔ کیا یہ قانون کی عملداری ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے خود اپنی جان بچاتے پھریں؟
یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے قوانین میں انتہا پسندانہ رجحانات کے تدارک کی طاقت بھی ہے یا نہیں؟ اگر موجودہ قوانین ناکافی ہوں تو ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن سے ایسے واقعات کے رونما ہونے سے پہلے ان کی روک تھام ہو سکے۔ اس کے بعد یہ دیکھنا ہو گا منتخب حکومت جس کو عوام نے مینڈیٹ دیا ہو وہ ان قوانین کے نفاذ میں کتنی سنجیدہ ہے۔  

سول سوسائٹی بھی سیالکوٹ واقعے پر سراپا احتجاج ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سیالکوٹ کا واقعہ سب کے لیے ایک ویک اپ کال  ہونی چاہیے۔
ابھی فوری طور پر گرفتاریاں بھی ہو رہی ہیں، آگے شاید کچھ لوگوں کو سزا بھی مل جائے مگر ایسے واقعات کے تدارک کے لیے اس کے محرکات اور اسباب تک پہنچنا ضروری ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ پچھلے کچھ عرصے میں ہوئے انتہا پسندی کے واقعات پر ایک اعلٰی سطحی کمیشن بنائے جو نہ صرف ان کی وجوہات کی نشاندہی کرے بلکہ ان عناصر کا بھی تعین کرے جس کی وجہ سے انتہا پسندی کو تحریک مل رہی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ قوانین اور سسٹم میں تبدیلی کے لیے سفارشات بھی دے۔
ان سفارشات کی روشنی میں وہ دو رس تبدیلیاں کی جائیں جن سے اس معاشرتی تشدد اور انتہا پسندی کے جن کو بوتل میں ڈالا جا سکے۔ 

شیئر: