بنگلہ دیش میں 20 طلبہ کو سزائے موت، ’فیصلہ عوام کی جیت‘
بنگلہ دیش میں 20 طلبہ کو سزائے موت، ’فیصلہ عوام کی جیت‘
بدھ 8 دسمبر 2021 19:54
بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے کہا تھا کہ ان طلبہ کو ’سخت ترین سزا‘ دی جائے گی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
بنگلہ دیش میں سوشل میڈیا پر حکومت پر تنقید کرنے والے ایک طالب علم کو 2019 میں قتل کرنے پر 20 طلبہ کو سزائے موت دی گئی ہے۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 21 سالہ ابرار فہد نے وزیراعظم حسینہ واجد کی جانب سے انڈیا کے ساتھ پانی کے معاہدے کے خلاف فیس بک پر ایک پوسٹ لکھی تھی اور اس کے چند گھنٹوں بعد ان کی نعش ہوسٹل سے ملی تھی۔
انہیں 25 طلبہ نے کرکٹ بیٹ اور دیگر اشیا سے چھ گھنٹے تک مارا پیٹا تھا۔ یہ طلبہ حکمران جماعت عوامی لیگ کے طلبہ ونگ کے ارکان تھے۔
طلبہ کو سزا سنائے جانے کے بعد ابرار فہد کے والد نے میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اس فیصلے سے خوش ہوں۔ مجھے امید ہے کہ جلد ہی ان کی سزا پر عمل درآمد ہوجائے گا۔‘
باقی پانچ طلبہ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ جن طلبہ کو سزائے موت سنائی گئی ہے ان کی عمریں قتل کے وقت 20 سے 22 برس تھیں اور وہ فہد کے ساتھ بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی میں زیر تعلیم تھے۔
سزا پانے والے کچھ طلبہ کے وکیل فاروق احمد کا کہنا تھا کہ اس سزا کے خلاف اپیل کی جائے گی۔ ’میں اس فیصلے سے مایوس ہوا ہوں۔ یہ انصاف نہیں ہے۔‘
’یہ نوجوان ہیں اور ان میں کچھ ملک کے بہترین طلبہ ہیں۔ ان میں کچھ کے خلاف مناسب ثبوت نہیں تھے پھر بھی انہیں سزائے موت سنائی گئی۔‘
ابرار فہد کے قتل کے بعد ہونے والے احتجاج میں مظاہرین نے حملہ آوروں کو سخت سزا دینے اور ان کی تنظیم پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے کہا تھا کہ ان طلبہ کو ’سخت ترین سزا‘ دی جائے گی۔
ملک کے وزیر قانون انیس الحق نے کہا کہ ’عدالت کے فیصلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا جرم کرنے کے بعد کوئی آزاد نہیں گھوم سکتا۔‘
اس فیصلے کا خیرمقدم کرنے کے لیے چترا اودہیکار پریشاد نامی طلبہ گروپ نے ریلی نکالی۔
اس گروپ کے جنرل سیکریٹری اکرام حسین نے کہا کہ ’یہ فیصلہ لوگوں کی جیت ہے۔‘
واضح رہے کہ اس سے قبل 2019 میں ایک اور طالب علم کو زندہ جلانے پر 16 افراد کو موت کی سزا دی گئی تھی۔