Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ڈیموکریسی سمٹ‘، انکار کی وجہ ’ون چائنہ پالیسی‘؟

بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین بھی پاکیستان کے فیصلے کو ’اچھا فیصلہ‘ قرار دے رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان نے امریکہ کی جانب سے ورچوئل ’ڈیموکریسی سمٹ‘ میں دعوت پر شکریہ ادا کرتے ہوئے شرکت سے معذرت کر لی ہے جسے پاکستان میں سیاسی، سفارتی اور بین الاقوامی سیاست کو سمجھنے والوں کی جانب سے درست فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے۔
دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق  ’پاکستان مختلف معاملات پر امریکہ کے ساتھ رابطے میں ہے اور مستقبل میں موقع ملنے پر مناسب وقت میں وسیع تر امور پر بات چیت  بھی کریں گے۔‘
بدھ کو انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز پالیسی میں اپنے خطاب میں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اس کانفرنس کا تذکرہ تو نہ کیا تاہم انھوں نے کہا کہ ’دنیا میں سرد جنگ کی طرف جاتی صورت حال کے باعث بلاکس بن رہے ہیں۔ پاکستان ان بلاکس کا حصہ نہیں بنے گا۔‘
امریکہ نے اس کانفرنس میں چین کو مدعو نہیں کیا جبکہ تائیوان کو مدعو کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کی جانب سے شرکت کے انکار کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ پاکستان ’ون چائنہ پالیسی‘ کے خلاف نہیں جا سکتا۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کے اب خطے میں بہت کلیدی مفادات ہیں۔ ان مفادات کے ہوتے ہوئے دنیا کا کوئی ملک پاکستان کو دباؤ میں لا کر ایک جانب نہیں دھکیل سکتا۔ اسی وجہ سے پاکستان کسی بھی چین مخالف بلاک کا حصہ کبھی نہیں بنے گا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’امریکہ سمجھتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی شرائط بھی خود ہی طے کر سکتا ہے جب جو چاہے کر اور کہہ سکتا ہے پاکستان صرف ’ہاں‘ کہنے کے لیے ہے۔‘

دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق  ’پاکستان مختلف معاملات پر امریکہ کے ساتھ رابطے میں ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’بائیڈن انتظامیہ کو سمجھ لینا چاہیے کہ امریکہ اب دنیا میں واحد سپر پاور نہیں رہا۔ پاکستان کے پاس اپنی خارجہ پالیسی میں خطے میں مواقع اور سٹریٹیجک سپیس دستیاب ہے۔‘
پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط نے اس حوالے سے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ ’دنیا اس وقت ایک نئے مرحلے سے گزر رہی ہے۔ اس کانفرنس کا سارا معاملہ چین اور روس کے خلاف لگ رہا ہے۔ پاکستان کی ہمیشہ سے ون چائنہ پالیسی رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کسی ایسے فورم پر نہیں جا سکتا جہاں تائیوان موجود ہو اور چین موجود نہ ہو۔ یہ خود امریکہ کی بھی پالیسی کے بھی خلاف ہے کہ انھوں نے ون چائنہ کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔‘
ان کے بقول ’پاکستان نے اس کانفرنس میں نہ جانے کا فیصلہ کرکے خود کو مزید مشکلات سے بچایا ہے اس لیے یہ صحیح فیصلہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات خراب ہیں۔ انھیں ٹھیک کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے تاہم اس میں یہ اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے کسی دوسرے ملک سے تعلقات متاثر ہوں۔‘

پاکستان پہلے بھی امریکہ کو ’نہ‘ کہہ چکا ہے

سینیٹر مشاہد حسین نے بتایا کہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان نے کسی معاملے پر امریکہ کو انکار کیا ہو۔ اس سے پہلے اس سے بہت بڑے معاملات پر بھی پاکستان امریکہ کو ’نہ‘ کہہ چکا ہے۔
’ملک میں سیاسی و معاشی مشکلات کے باوجود پاکستان نے متعدد مواقع پر اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے امریکہ کو انکار کیا۔ 1963 میں صدر جنرل ایوب نے چائنہ پالیسی پر، 1976 میں ذوالفقار علی بھٹو نے نیوکلیئر کے معاملے پر اور 1998 میں ایٹمی دھماکہ کرتے وقت نواز شریف نے بھی امریکہ کو انکار کیا تھا۔‘

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نے کہا کہ ’دنیا میں سرد جنگ کی طرف جاتی صورت حال کے باعث بلاکس بن رہے ہیں۔ پاکستان ان بلاکس کا حصہ نہیں بنے گا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

مشاہد حسین کے مطابق ’پاکستان کی قیادت ہمیشہ سے یہ سمجھتی رہی ہے کہ پاکستان کے عوام کے مقبول ترین جذبات دراصل ملکی مفادات کے تحفظ کا عکاس ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ مقبول فیصلے کرنے میں کامیاب رہے اور ملک کے مفادات پر سمجھوتہ نہیں کیا۔‘
سیاسی اور خارجہ امور کے ماہرین کے علاوہ بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین بھی اس فیصلے کو ’اچھا فیصلہ‘ قرار دے رہے ہیں۔
انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفیسر ہمایوں خان سمجھتے ہیں کہ ’امریکہ نے جمہوریت کی اپنی تعریف کرکے کچھ لوگوں کو بلا لیا ہے اور کچھ کو دوسری جانب دھکیل دیا ہے۔ ایسے میں پاکستان کو اپنے ہمسایہ ممالک کو مشکل میں ڈالنے والے کسی فورم میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔‘
انھوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’افغانستان میں موثر ترین کردار ادا کرنے کے باوجود امریکی صدر نے پاکستان کے وزیراعظم کو فون تک نہیں کیا۔ یہ پاکستان کو زچ کرنے کے مترادف ہے۔ فون نہ کرنے کا اگر امریکہ کا فیصلہ ہے تو اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ بھی پاکستان کا اپنا ہے۔‘
ماہرین کے مطابق اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے کچھ اثرات تو ضرور ہوں گے تاہم پاکستان نے بھی سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے۔

شیئر: