Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رانا شمیم بیان حلفی کیس، ’ایک خبر سے عدالت کا اعتماد خراب نہیں کرنے دیں گے‘

اٹارنی جنرل نے کہا کہ رانا شمیم نے اپنے جواب میں اپنے علاوہ ہر شخص کو بیان حلفی لیک کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ (فوٹو: فائل)
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ بین الاقوامی نوعیت کے کیسز کے علاوہ لاپتہ افراد کے کیسز بھی سن رہی ہے ایسے میں ایک خبر سے ہزاروں درخواست گزاروں پر اس عدالت کا اعتماد خراب نہیں کرنے دیں گے۔
پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں سابق جج رانا شمیم کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف مبینہ بیان حلفی کیس پر سماعت ہوئی۔
عدالت نے 20 دسمبر کو اگلی سماعت پر توہین عدالت کے ملزمان کو آخری موقع دیا ہے کہ ’وہ عدالت کو مطمئن کریں کہ ان کے خلاف فرد جرم کیوں ناں عائد کی جائے۔‘
سماعت میں جنگ دی نیوز کے صحافی انصار عباسی، عامر غوری اور سابق جج رانا شمیم کے علاوہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان سمیت عدالتی معاونین بھی شریک ہوئے۔
گزشتہ سماعت پر عدالت نے رانا شمیم کو 13 دسمبر تک اپنا اصل بیان حلفی پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
پیر کو اپنی تحریری درخواست میں رانا شمیم نے بتایا کہ لندن سے ان کے نواسے نے کوریئر سروس کے ذریعے حلف نامہ بھیج دیا ہے جو تین کاروباری دنوں تک پہنچ جائے گا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’بیانیے کے ذریعے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنایا جا رہا ہے۔ یہ کیس توہین عدالت کا نہیں اسلام آباد ہائی کورٹ پر درخواست گزاروں کے اعتماد کا ہے۔ اس عدالت میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کا کیس چل رہا ہے۔ یہاں لاپتہ افراد کے کیسز چل رہے ہیں ایسے میں ایک خبر کے ذریعے لوگوں کا اعتماد خراب نہیں کرنے دیں گے۔ اس دور میں کورٹ رپورٹروں سے کچھ چھپا نہیں رہ سکتا اگر عدالت میں کوئی نقص ہے تو بتائیں ’ہم شیشے کے گھروں میں بیٹھے ہیں جہاں  کچھ چھپا نہیں رہ سکتا۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بیانیے کے ذریعے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنایا جا رہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

پی ایف یو جے کی طرف سے عدالتی معاون ناصر زیدی نے کہا کہ ’اس ملک کی تاریخ بہت تلخ ہے اس ملک میں جو کچھ ہوتا رہا سب کے سامنے ہے۔‘
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’تاریخ کی بات نہ کریں میں تاریخ میں نہیں جاؤں گا۔ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا ذمہ دار ہوں۔ تاریخ ضرور تلخ ہو گی مگر یہ اسلام آباد ہائی کورٹ ہے۔ اگر اس عدالت نے ایسا کچھ کیا ہے تو پھر بتائیں۔ اگر اس مسئلے پر آپ سٹینڈ لینا چاہتے ہیں تو پھر دنیا بھر سے میڈیا کی مثال دیں کہ کیا یہ فیئر رپورٹنگ کے زمرے میں ہے۔ ٹیلی گراف اور گارجین جیسے اخباروں میں ایڈیٹر ان چیف کو توہین میں تین تین ماہ سزا ہوئی ہے۔ ہمارے پس بنیادی حقوق کی بات ہوتی ہے، فیئر رپورٹنگ کی بھی قانونی حدود ہیں۔‘
’اس عدالت کے سامنے بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلوں پر عمل درآمد ہو رہا ہے تو کیا یہ مناسب ہے کہ بلاوجہ اس عدالت پر سوال اٹھائے جائیں؟ یہ عدالت اس طرح کی بات برداشت نہیں کرے گی کیونکہ اس سے پھر عدالت دوسرے درخواست گزاروں کو انصاف فراہم نہیں کر سکے گی۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ میں انصار عباسی صاحب کی دیانتداری پر سوال نہیں اٹھاتا مگر اخبار میں چیف ایڈیٹر اور ایڈیٹر کا بھی کچھ کام ہوتا ہے۔
’زیدی صاحب آپ مجھے یہ نہ بتائیں کہ ماضی میں یہ ہوتا رہا ہے مجھے اس عدالت کے ججز کا بتائیں۔آپ سے پہلے مِسنگ پرسنز کا کیس تھا آپ اس عدالت پر بد اعتمادی پھیلائیں گے تو پھر کیا ہو گا؟‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ سابق چیف جسٹس (ثاقب نثار) کی بات نہیں یہ میری عدالت کا معاملہ ہے میرے ججز احتساب کے لیے تیار ہیں۔‘
اس موقع پر سینیئر صحافی انصار عباسی نے کہا کہ مجھے عدالت میں بات کا موقع نہیں ملتا۔ انصار عباسی رانا شمیم کے عدالت میں جمع کروائے گئے جواب کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے جب رانا شمیم سے اس خبر پر موقف لیا تو انہوں نے نہیں کہا کہ یہ بیان حلفی ذاتی استحقاق پر مبنی دستاویز ہے نہ مجھے انہوں نے اس پر خبر چھاپنے سے روکا۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ ’انصار صاحب آپ کی شہ سرخی نے اس ہائی کورٹ پر اعتماد کو متاثر کیا؟‘ (فوٹو: سکرین گریب)

انہوں نے کہا اپنی خبر میں انہوں نے صاف لکھا ہے کہ یہ سابق چیف جج گلگت بلتستان کا دعویٰ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’انصار صاحب آپ کی شہ سرخی نے اس ہائی کورٹ پر اعتماد کو متاثر کیا؟ اتنے عرصے سے ہمارا ماٹو ہے کہ درخواست گزار ہی سٹیک ہولڈر ہیں۔ میں آپ کو بہت عرصے سے جانتا ہوں آپ کی دیانتداری پر سوال نہیں مگر اس عدالت پر عوام کے اعتماد کا معاملہ ہے۔ آپ دنیا بھر کے معیارات پر اپنی رپورٹ کو پرکھیں۔ جس طرح کے بیانیے بن رہے ہیں یہ بھی دیکھیں۔ سچ جھوٹ بننے لگا ہے جھوٹ سچ بن گیا ہے۔‘
چیف جسٹس  نے پی ایف یو جے کے عدالتی معاون ناصر زیدی سے سوال کیا کہ کیا ایک استحقاق پر مبنی ذاتی دستاویز پر رپورٹنگ ہو سکتی ہے؟
ناصر زیدی نے کہا کہ صحافی کا کام حقیقت کو رپورٹ کرنا ہوتا ہے۔ انصار عباسی کی رپورٹنگ زمہ دارانہ ہوتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’اس عدالت نے آپ پر اعتماد کیا مگر اس خبر کی سرخی سے لگا کہ اس عدالت کے جج ہدایات لیتے ہیں۔
’جہاں تک میری ذات ہے میں توہین عدالت کے خلاف ہوں صرف پہلے ایک دفعہ (توہین عدالت) کی درخواست لی تھی وہ بھی اسی کیس سے متعلق تھی اس میں سب وضاحت کر دی تھی اس وقت نہ آپ اہم ہیں نہ ہم بلکہ سب سے زیادہ درخواست گزار اہم ہیں جو ان کے مفاد میں ہو گا وہی فیصلہ ہوگا۔ ہماری کوئی عظمت نہیں جو بھی ہے ہمارے فیصلوں میں ہے۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’ہم آپ سے سورس نہیں پوچھیں گے۔ آپ نے جو کہنا ہے حلف نامے میں کہہ دیں۔ آپ کے ایڈیٹر بتا دیں کہ کیا یہ بین الاقوامی پریکٹس کے مطابق عمل تھا۔ یہ میرا احتساب ہو رہا ہے۔ اس لیے بار کونسل کو بھی معاون بنایا اور پی ایف یو جے کو بھی۔‘
اس موقع پر پی ایف یو جے کی طرف سے عدالتی معاون آفتاب عالم نے عدالت سے استدعا کی کہ رانا شمیم کے بیان کی روشنی میں صحافی کی طرف سے جواب جمع کروانے کے لیے وقت دیا جائے۔

عدالت نے کہا کہ کہ ملزمان اگلی سماعت پر عدالت کو دلائل سے مطمئن کریں کہ ان پر فرد جرم کیوں عائد نہ ہو۔ (فوٹو: اےا یف پی)

اٹارنی جنرل نے بھی اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ’چونکہ انصار عباسی نے رانا شمیم کے موقف سے اختلاف کیا ہے تو انہیں موقع دیا جائے کہ وہ جوابی بیان حلفی جمع کروائیں تاکہ معاملہ واضح ہو سکے۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’رانا شمیم نے اپنے جواب میں تاثر دیا ہے کہ شاید لندن میں بیٹھے نوٹری جو کہ ایک پیشہ ور فرد ہیں انہوں نے حلف نامہ لیک کیا ہو مگر سوال یہ ہے کہ اس پیشہ ور شخص کا کوئی مفاد نہیں لگتا کہ وہ اس ڈاکومنٹ کو لیک کرے اس لیے بظاہر نہیں لگتا ہے کہ یہ بیان حلفی رانا شمیم نے ہی لیک کیا۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ عدالت اس جواب کی بنیاد پر یو کے میں ریگولیٹر کو رپورٹ کرے تو اس نوٹری کی انکوائری شروع کر دی جائے گی۔
عدالت نے اٹارنی جنرل سے رائے طلب کی تو خالد جاوید خان نے کہا کہ ’رانا شمیم نے اپنے جواب میں بہت اہم بات کی ہے کہ انہوں نے حلف نامہ بیوی کے دباؤ کی وجہ سے جمع کروایا اور اسے لندن میں محفوظ کیا۔ اگر انہیں عدالت کی تضحیک مطلوب ہوتی تو وہ پاکستان میں جمع کرواتے اور میڈیا سے شیئر کرتے گویا انہوں نے مان لیا ہے کہ یہ میڈیا میں آنے سے عدالت کی تضحیک ہوئی ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس جواب کی روشنی میں وہ مطمئن ہیں کہ اب توہین عدالت کی فرد جرم عائد ہونی چاہیے آج عدالت فرد جرم عائد کرنے کی تاریخ کا فیصلہ سنا دیں۔
انہوں نے کہا رانا شمیم نے اپنے جواب میں اپنے علاوہ ہر شخص کو بیان حلفی لیک کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ بیاں حلفی رانا شمیم نے خود ہی لیک کیا ہے۔ یہ صرف توہین عدالت کا ہی نہیں جھوٹی گواہی کا بھی کیس بنتا ہے۔
عدالت نے سماعت سوموار 20 جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان اگلی سماعت پر عدالت کو دلائل سے مطمئن کریں کہ ان پر فرد جرم کیوں عائد نہ ہو اس کے علاوہ وہ بیان حلفی اور جوابی بیان حلفی بھی جمع کروا سکتے ہیں۔

شیئر: