Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رانا شمیم سوموار تک حلف نامہ جمع کروائیں ورنہ فرد جرم عائد ہوگی: ہائیکورٹ

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا بہت ضروری ہے کہ اصل حلف نامہ جمع کروایا جائے۔ (فوٹو: ہائی کورٹ)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کے سپریم ایپلیٹ کورٹ کے سابق چیف جج رانا شمیم  کو 13 دسمبر تک اصلی حلف نامہ جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو اسی دن ان پر فرد جرم عائد کر دی جائے گی۔
منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں رانا شمیم کے مبینہ بیان حلفی کی خبر پر توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی تو سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اور سینیئر وکیل لطیف آفریدی رانا شمیم کی جانب سے پیش ہوئے اور شوکاز نوٹس کا جواب داخل کرایا۔
اپنے جواب میں رانا شمیم نے صحافی انصار عباسی کی خبر میں شامل اپنے حلف نامے کے متن کی تصدیق کردی تاہم کہا کہ انہوں نے اسے شیئر نہیں کیا تھا۔
لطیف آفریدی سے جب عدالت نے پوچھا کہ اصل حلف نامہ کیوں پیش نہیں کیا تو انہوں نے کہا کہ اصل دستاویز برطاینہ میں رانا شمیم کے پوتے کے پاس ہے جن کا کچھ خفیہ لوگ پیچھا کر رہے ہیں۔ ان کے اس انکشاف پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’شاید آپ کے موکل نے آپ کو غلط اطلاع دی ہے۔ وہ برطانیہ میں ہیں جہاں ایسا نہیں ہوتا۔‘
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے بھی اس انکشاف پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بار سنا ہے کہ رانا شمیم کے پوتے کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ اس بات کے سنجیدہ اثرات پاکستان کی سرحدوں کے باہر بھی ہوں گے۔ کہانی میں جھول ہے۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ’میں نے خط لکھا تھا۔ ہمیں جاننا ہے کہ حلف نامہ کہاں ہے۔ اگر پیش نہیں ہوتا تو ہم سمجھیں گے ہے ہی نہیں۔ حلف نامہ پاکستان کے سفارت خانے میں جمع کروا دیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بہت ضروری ہے کہ اصل حلف نامہ جمع کروایا جائے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’اگر آپ کے موکل نے یہ حلف نامہ جمع نہیں کروایا تو اس کے دونوں کے لیے سخت نتائج ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ لطیف آفریدی کی عدلیہ کی آزدی کے لیے بہت جدوجہد ہے یہ عدالت ان کا بہت احترام کرتی ہے اور یہ صرف رانا شمیم کے وکیل نہیں اس عدالت کے معاون بھی ہیں۔ تاہم انہوں نے رانا شمیم کو کہا کہ ’سوموار تک حلف نامہ لائیں۔ ورنہ عدالت چارجز لگا دے گی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بہت ضروری ہے کہ اصل حلف نامہ جمع کروایا جائے۔ (فوٹو: اسلام آباد ہائیکورٹ)

سماعت کے دوران گلگت بلتستان کے سپریم ایپلیٹ کورٹ کے چیف جج رانا شمیم ، صحافی انصار عباسی اور عامر غوری حاضر ہوئے جبکہ جنگ گروپ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل نے نیب کیس کی وجہ سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست کی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لطیف صاحب ’ہم ججز پریس کانفرنس نہیں کر سکتے۔ ہمارے خلاف ایک بیانیہ بننا شروع ہوگیا کہ کسی شخص کو الیکشن سے پہلے ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ یہ خبر اور حلف نامہ اس عدالت کے خلاف بیانیے کا حصہ ہے۔‘
سوال یہ ہے کہ حلف نامے کے مطابق اگر آپ کے موکل کی موجودگی میں اتنا بڑا جرم ہوا اور چیف جسٹس آف پاکستان نے ایسی بات کی تو وہ تین سال خاموش کیوں رہے؟ پھر جن کے بارے میں حلف نامے میں لکھا ہے وہ متعلقہ جج تو اس وقت چھٹی پر تھے جبکہ جن دو ججز نے (نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت والا) کیس سنا تھا وہ دونوں بہترین ساکھ کے حامل ہیں۔ خبر سے بیانیہ بنا کے سارے جج کمپرومائز کر رہے تھے۔ جس نے بنچ بنایا، جس نے کیس سنا سب پر شکوک پیدا کیے گئے۔ تین سال بعد کس وجہ سے برطانیہ میں حلف نامہ بنایا گیا۔ کیا ضمیر جاگ گیا؟
عدالت نے استفسار کیا کہ ’اگر ضمیر جاگا تو کسی عدالت میں جمع کرواتے وہ تو کہتے ہیں لاکر میں رکھا تھا آخر اس وقت حلف نامہ بنانے کا مقصد کیا تھا۔ اخبار نے جو بے احتیاطی کی وہ بعد کی بات ہے مگر آپ کے موکل کے حلف نامے نے سارے ججز پر سوال اٹھائے ایسے وقت میں جب اسی کیس کی اپیل لگی ہوئی تھی۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’مجھے پورا یقین ہے کہ کوئی اس ہائی کورٹ کے کسی جج کو اپروچ نہیں کر سکتا۔ ہمارے فیصلے اس کے گواہ ہیں۔ لطیف صاحب آپ کے موکل کو ثابت کرنا ہوگا کہ ان کی بدنیتی نہیں تھی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ بار اور ان کورٹ کے رپورٹرز سے کچھ چھپ نہیں سکتا۔ کوئی جج جو یہ بہانہ بنائے کہ اس پر پریشر ہے وہ آزاد نہیں ہو سکتا۔
لطیف آفریدی سے مخاطب ہو کر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ اس شہر سے آئے ہیں جہاں مرحوم جسٹس وقار احمد سیٹھ (سابق چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ) جیسے جج تھے۔ ’ان کو کوئی پریشر نہیں ڈال سکتا تھا اس عدالت کے جج بھی ایسے ہی ہیں۔ کسی میں جرات نہیں کہ مجھے اپروچ کرے۔ یہی حال میرے ججوں کا ہے۔‘

وکیل آفریدی نے کہا کہ میرے موکل رانا شمیم کو کو برطانیہ جا کر حلف نامہ لانے کی اجازت دی جائے۔ (فوٹو: فائل)

 یہ صرف توہین عدالت نہیں اس عدلیہ پر اعتماد کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔’
اس موقع پر دلائل دیتے ہوئے لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ ججز اور عدالت اور وکیل خلا میں نہیں ہوتے وہ ایک معاشرے اور ادارے کا حصہ ہوتے ہیں۔
گذشتہ 75 سالوں سے عدلیہ اپنی آزادی برقرار رکھنے کی جدوجہد میں ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی اسی جدوجہد میں ہیں۔ سیاسی معاملات عدالتوں میں نہیں آنے چاہیے مگر بدقسمتی سے ایسا ہوتا آ رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔‘
 لطیف آفریدی نے کہا کہ ’میرا موکل کہتا ہے کہ اس نے حلف نامہ جاری نہیں کیا۔ تاہم اس نے حلف نامے کے متن سے انکار نہیں کیا۔‘ انہوں نے کہا کہ میرے موکل رانا شمیم کو برطانیہ جا کر حلف نامہ لانے کی اجازت دی جائے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’وہ نہیں جا سکتے ایسا نہیں ہوتا بس سوموار تک اصل حلف نامہ لائیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ جو کرسی پر بیٹھتا ہے اس کا ضمیر نہیں جاگتا بعد میں جاگتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ججز کو اپنا دروازہ بند رکھنا چاہیے تاکہ ان پر پریشر محسوس ہی نہ ہو۔
اس پر لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ ’ہم نے نہیں سنا کہ آپ کا یا کسی اور جج کا دروازہ (اثر رسوخ قبول کرنے کے لیے ) کھلا ہوا ہو یہ طے شدہ بات ہے۔ تاہم چیف جسٹس آف پاکستان کے حوالے سے سوالات ہیں۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ عدالت چیف جسٹس آف پاکستان (جسٹس ثاقب نثار) کی توہین کا کیس نہیں سن رہی بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا کیس ہے۔ کیا آپ چاہتے ہیں میرے سمیت ججز کی انکوائری شروع ہو جائے؟‘

شیئر: