سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے بدھ کو ملک بھر کی پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے غیر قانونی کیمپس بند کرنے کے حکم کے بعد یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ ان اداروں میں پڑھنے والے یا وہاں سے فارغ التحصیل طلبہ کا مستقبل کیا ہو گا اور انہیں ڈگریاں کیسے ملیں گی؟
’یہ پیچیدہ اور حساس معاملہ ہے‘
اس حوالے سے جب اردو نیوز نے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے ترجمان وسیم خالق داد سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’دیکھیے ہماری جانب سے ہر چیز پہلے سے واضح ہے۔ ایچ ای سی کی ویب سائٹ پر یونیورسٹیز کے ایسے کیمپسز کی فہرست موجود ہے جو غیر قانونی ہیں اور ہم طلبہ کو وقتاً فوقتاً اس بارے میں آگاہ کرتے رہتے ہیں۔‘
سپریم کورٹ کے حالیہ حکم کے بارے میں وسیم خالق داد کا کہنا تھا کہ ’ابھی تک ہمارے پاس عدالت کا حکم نامہ نہیں پہنچا۔ ہم میڈیا ہی سے خبریں سن رہے ہیں۔ یہ بہت پیچیدہ اور حساس معاملہ ہے، ہم عدالت کے حکم نامے کو غور سے پڑھنے کے بعد ہی کوئی بات کر سکتے ہیں۔‘
مزید پڑھیں
-
بلوچستان میں پہلی بار جنسی ہراسانی پر آگاہی کی مہمNode ID: 442161
-
کورونا کے دنوں میں گریجویشن کا جشن بھی پھیکاNode ID: 486456
ان کے مطابق ’لیکن یہ بات طے ہے کہ ایچ ای سی غیر قانونی کیمپسز کی ڈگریوں کی تصدیق نہیں کرتا۔ اگر ہم ان لوگوں کی ڈگریوں کو اٹیسٹ کریں گے تو پھر وہ غیر قانونی کیسے کہلائی جا سکتی ہیں؟‘
واضح سپریم کورٹ کے جسٹس عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے بدھ کو غیر قانونی کیمپسز سے ڈگریاں جاری نہ کرنے کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ’ایچ ای سی غیر قانونی کیمپس سے پاس آؤٹ ہونے والے طلبہ کو مخصوص طریقے سے ڈگریاں فراہم کرے۔‘
اب اگر ان طلبہ کو ڈگریاں جاری کی جائیں گی تو ان کا مخصوص طریقہ کیا ہوگا۔ اس حوالے سے ابھی تک ایچ ای سی خاموش ہے۔
خیال رہے کہ طلبہ نے ایچ سی سی کی جانب سے ان کیمپسز کو ڈگریاں جاری نہ کرنے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا جنہیں ایچ ای سی نے غیر قانونی قرار دے رکھا ہے۔
سماعت کے دوران طلبہ کے وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ اس سے قبل یہ طلبہ اپنی ڈگریوں کے لیے لاہور ہائی کورٹ گئے تھے لیکن عدالت نے نجی یونیورسٹیوں کے کمیپسز کو ہی غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’لاہور ہائی کورٹ نے درست اور حقائق پر مبنی فیصلہ دیا ہے۔‘
’ایچ ای سی کے اشتہارات کی وجہ سے کئی ادارے برباد ہوئے‘
اس حوالے سے اردو نیوز نے جب ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز(اے پی ایس یو پی) کے ترجمان میاں عمران سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں 210 یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں جن میں سے 82 پرائیوٹ سیکٹر سے ہیں۔ حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ پرائیویٹ سیکٹر کو توجہ نہیں دیتی۔
’یونیورسٹی کا قیام وفاقی یا صوبائی چارٹر کے تحت ہوتا ہے اور اس چارٹر کے لحاظ سے اس کا دائرہ کار متعین ہوتا ہے۔ جب یونیورسٹی کے لیے اسمبلی سے قانون منظور ہوتا ہے تو اس میں واضح لکھا ہوتا ہے کہ یونیورسٹی ایک خود مختار ادارہ ہے جو اپنے ذیلی کیمپسز کھول سکتا ہے اور کالجز بھی اس کے ساتھ ملحق ہو سکتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایچ ای سی اس کو نہیں مانتا۔‘
ان کے مطابق ’ایچ ای سی سے نے اخبارات میں اشتہارات جاری کر کے اور ان میں پرائیویٹ یونیوسٹیوں کے بعض کیمپسز کے نام لکھ کر ان کی ساکھ تباہ کر دی جس کے بعد کئی ایسے کالج برباد ہو گئے جنہوں نے کسی یونیورسٹی سے ایفیلی ایشن لے کر کام کا آغاز کیا تھا۔‘
میاں عمران کا کہنا ہے کہ ’چند ماہ قبل لاہور ہائی کورٹ نے پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے حق میں فیصلہ بھی دیا تھا کہ انہیں سب کیمپسز کھولنے اور کالجوں کو اپنے ساتھ منسلک کرنے کا اختیار ہے۔ اس کے خلاف ایچ ای سی کی اپیل بھی خارج ہو گئی تھی اور عدالت نے کہا تھا کہ پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن اس حوالے سے رولز بنائے۔‘
ایچ ای سی کی جانب سے غیر قانونی قرار دی گئی یونیورسٹیوں کے ان طلبہ کے مسئلے کا حل کیا ہو گا جو چار، چار برس فیسیں ادا کر کے اپنی ڈگریاں مکمل کر چکے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں میاں عمران کا کہنا تھا کہ طلبہ کے اخراجات واپس بھی کر دیں تواگر ایچ ای سی ان کی ڈگری کو تسلیم نہیں کرتا تو انہیں کیا فائدہ ہوگا۔
اس کے ساتھ ساتھ میاں عمران یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ’ایسی یونیورسٹیاں جن کے پاس قومی یا صوبائی چارٹر نہیں ہیں وہ اور ان کے ساتھ ملحق کالجز غیر قانونی ہیں۔‘
’طلبہ کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ایچ ای سی کو رولز بنانے ہوں گے۔‘
’جعلی اور غیر قانونی‘ ادارے کون سے ہیں؟
ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی ویب سائٹ پر پرائیویٹ یونیوسٹیوں کے متعدد ذیلی کمیپسز اور ان کے ساتھ ملحق کالجوں کی فہرست موجود ہے۔

اس فہرست میں پاکستان کے وفاقی دارالحکومت، چاروں صوبوں اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ’غیر قانونی اداروں‘ کے نام درج ہیں۔ ایچ ای سی نے اس فہرست کو ’غیرقانونی یا جعلی اداروں‘ کا عنوان دے رکھا ہے۔
ایچ ای سی کی فہرست کے مطابق پنجاب میں 97، سندھ میں 36، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 3، خیبر پختونخوا میں 11 جبکہ وفاقی دار الحکومت اسلام آباد کا ایک ادارہ شامل ہے۔ اس فہرست میں بلوچستان کا کوئی ادارہ شامل نہیں۔
’کئی یونیورسٹیوں نے دونمبری کرتے ہوئے پیسہ بٹورا‘
اس حوالے سے معروف ماہر تعلیم اور استاد ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا موقف ذرا الگ ہے۔ انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایچ ای سی کے پاس یونیوسٹیوں کے معیار کی جانچ کا کوئی معتبر پیمانہ نہیں ہے۔‘
’پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں بعض معیاری یونیورسٹیاں موجود ہیں جیسا کہ لمز ہے اور دوسری طرف ہر گلی کوچے میں آپ کو یونیورسٹی دکھائی دیتی ہے۔‘
’یونیورسٹیوں میں طلبہ کو مخلتف قسم کے ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ ان کی ڈگری کس معیار کی ہے اس کا فیصلہ وہ لوگ کر سکتے گے جو ان ڈگریوں کے حامل طلبہ کو نوکریاں دیتے ہیں۔ باقی ایچ ای سی کی باتیں محض ہوائی فائرنگ ہے۔‘
ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے کہا کہ ’یہاں ایسی بھی یونیورسٹیاں موجود ہیں جنہوں نے دونمبری کرتے ہوئے پیسہ بٹورا ہے۔ ایسی یونیورسٹیوں کے طلبہ کا مسئلہ تو حل نہیں ہوگا لیکن ایچ ای سی کو یہ بتانا ہو گا کہ وہ کس پیمانے پر ڈگریوں کی ساکھ جانچتا ہے۔‘
’ایچ ای سی کے اندر خرابیاں ہیں۔ مثال کے طور پر وہ یونیورسٹیوں کو کارکردگی کو پبلیکیشنز کی تعداد سے جوڑتے ہیں جس کی وجہ سے ایڈمک کرپشن کے الزامات سامنے آئے ہیں۔
