’عالمی برادری افغانستان کے بینکاری نظام کو چلانے میں معاونت کرے‘
’عالمی برادری افغانستان کے بینکاری نظام کو چلانے میں معاونت کرے‘
جمعہ 17 دسمبر 2021 11:18
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’اگرافغانستان کی صورت حال مزید خراب ہوئی تو دہشت گرد گروہوں کو پنپنے کا موقع ملے گا‘ (فائل فوٹو: وزارت خارجہ)
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کے بینکاری نظام کو نئے سرے سے شروع کرنے میں معاونت کرے تاکہ افغان عوام تک امداد بینکنگ چینل کے ذریعے پہنچائی جا سکے۔
جمعے کو اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس سے قبل ملکی و غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کے دوران وزیر خارجہ نے کہا کہ ’افغانستان اس وقت مخدوش معاشی صورت حال اور انسانی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ پاکستان کو افغانستان کا قریبی ہمسایہ ہونے کے ناطے اس صورت حال پر گہری تشویش ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’افغانستان کی صورت حال روز بروز سنگین ہوتی جا رہی ہے جو عالمی برادری کی جانب سے فوری توجہ اور معاونت کی متقاضی ہے۔ افغانستان میں بینکاری نظام کی عدم دستیابی کے باعث اگر کوئی ملک امداد کا اعلان کرتا ہے تو بھی اس امداد کی فراہمی میں مشکلات ہیں۔‘
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ’اسی طرح افغانستان کے باہر بیٹھے ہوئے لوگ خواہش کے باوجود افغانستان میں اپنے پیاروں کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔ وہ افغان شہری جو اپنے ملک میں ترسیلات زر بھیجنا چاہتے ہیں لیکن بینکنگ کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے ترسیلات زر نہیں بھیج پا رہے۔‘
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’عالمی برادری تکنیکی اعتبار سے افغان حکومت کے ساتھ معاونت کرکے بینکاری نظام کو نئے سرے سے چلانے میں مدد دے۔‘
وزیر خارجہ نے کہا کہ ’افغانستان کی صورت حال سنگین ہوتی جا رہی ہے جو عالمی برادری کی فوری توجہ کی متقاضی ہے‘ (فائل فوٹو: وزارت خارجہ)
اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس کے حوالے سے شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ ’آج عالمی برادری انسانی معاونت کے لیے افغانستان کے ساتھ بات چیت کے لیے آمادہ ہے۔ معاونت کی فوری ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس کا ہنگامی طور پر انعقاد ہو رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ افغانستان تین کروڑ 80 لاکھ نفوس پر مشتمل ملک ہے۔ یو این ڈی پی کے مطابق اگر افغانستان کی صورتحال پر فوری توجہ نہ دی گئی تو 2022 کے وسط تک 97 فیصد افغان سطح غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔‘
وزیر خارجہ کے بقول پاکستان اپنی اقتصادی ترجیحات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ ’پُرامن افغانستان ہمارے مفاد میں ہے، اگر افغانستان کی صورت حال پر فوری قابو نہ پایا گیا تو پچھلے 20 سال میں امن و استحکام کے لیے کی گئی کوششیں ملیا میٹ ہو جائیں گی۔‘
انہوں نے خبردار کیا کہ ’اگر صورت حال مزید خراب ہوئی تو دہشت گرد گروہوں کو پنپنے کا موقع ملے گا۔ ہم عالمی برادری کو یہ باور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ افغانستان میں 40 سال کے بعد قیام امن کی امید پیدا ہوئی ہے اس موقع کو ضائع نہیں ہونا چاہیے۔‘
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’گیارہ اہم امریکی شخصیات جن میں سابق سفیر اور کمانڈر شامل ہیں، نے مشترکہ طور پر بائیڈن انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان کو انسانی المیے سے بچانے کے لیے کردار ادا کیا جائے اور انہیں تنہا نہ چھوڑا جائے۔ یہی وہ موقف ہے جس کی طرف پاکستان عالمی برادری کی توجہ مبذول کروانے کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’پاکستان نے افغانستان کی حتی المقدور مدد کی ہے لیکن یہ ذمہ داری پاکستان تنہا ادا نہیں کر سکتا‘ (فوٹو: وزارت خارجہ)
ان کا کہنا تھا کہ ’آج دنیا ہماری آواز پر توجہ دے رہی ہے اور افغانستان کی معاونت کے لیے آمادگی کا اظہار کر رہی ہے۔ عالمی برادری کی افغانستان سے کچھ توقعات وابستہ ہیں۔ میں نے کابل کے دورے کے دوران طالبان عبوری قیادت کو ان توقعات سے آگاہ کیا۔‘
شاہ محمود قریشی نے مزید بتایا کہ ’ان توقعات میں افغانستان میں بنیادی انسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کی پاسداری، دہشت گردی کے خاتمے کی یقین دہانی، اجتماعیت کی حامل حکومت سازی جیسے نکات شامل ہیں۔‘
’ہم نے افغان قیادت پر زور دیا کہ عالمی برادری کی توقعات پر پورا اترنا ان کے مفاد میں ہے۔ دوسری جانب ہم نے عالمی برادری پر زور دیا کہ ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے۔‘
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان نے افغانستان کی حتی المقدور مدد کی ہے لیکن یہ ذمہ داری پاکستان تنہا ادا نہیں کر سکتا۔ توقع ہے کہ او آئی سی وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس کے ذریعے ہم لاکھوں افغان شہریوں کی انسانی بنیادوں پر فوری امداد کے لائحہ عمل کے لیے آگے بڑھ سکیں گے۔‘
شاہ محمود قریشی نے کانفرنس میں شرکت کرنے والے وزرائے خارجہ کی حتمی تعداد بتانے سے تو گریز کیا تاہم انھوں نے کہا کہ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی اور امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ٹام ویسٹ اجلاس میں شرکت کریں گے۔