ماڈلنگ سے کیریئر کا آغاز کرنے والی اداکارہ سنیتا مارشل پہلے مرکزی کرداروں میں نظر آتی تھیں لیکن اب وہ سائیڈ رولز کر رہی ہیں۔
سنیتا مارشل نے ڈرامہ ’خدا اور محبت 3 میں ماہی (اقرا عزیز) کی بھابھی (صاحبہ) کا کردار ادا کیا تھا جو ایک سپورٹنگ رول تھا لیکن ان کی اداکاری کو کافی سراہا گیا تھا اور اب وہ ڈرامہ سیریل ’محبت داغ کی صورت‘ میں بھی سائید رول میں نظر آ رہی ہیں۔
اردو نیوز نے سنیتا مارشل سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ایک مخصوص عمر کے بعد خواتین اداکاراؤں کو ہیروئن کا کردار کیوں آفر نہیں ہوتا۔
سنیتا مارشل کہتی ہیں کہ ’ڈرامہ رائٹرز اور لوگ نئے اور جوان چہرے ہی سکرین پر دیکھنا چاہتے ہیں جو غلط نہیں ہے لیکن بڑی عمر کے لوگوں کے لیے بھی کردار لکھنے چاہییں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میں بھی جب (انڈسٹری میں) نئی آئی تھی تو مجھے زیادہ آفرز آتی تھیں۔ اس میں کچھ غلط تونہیں ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ مرکزی کرداروں کے علاوہ کوئی اور کردار لکھے نہیں جا رہے۔‘
سنیتا نے ڈرامہ ’خدا اور محبت3‘ میں اپنے کردار کے حوالے سے بتایا کہ ’میرا نہیں خیال کہ میرا بالکل ہی سائیڈ رول تھا بلکہ میجر سپورٹنگ کردار تھا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ مرد فنکار عمر بڑھنے کے بعد بھی بطور ہیرو سکرین پر نظر آتے ہیں تو کیا یہ دہرا معیار نہیں، سنیتا مارشل نے کہا کہ ’ پوری دنیا میں ہی ایسا ہے اس کی وجہ کیا ہے مجھے اندازہ نہیں ہے۔‘
سنیتا مارشل زیادہ تر مثبت کرداروں میں ہی نظر آتی ہیں اور ابھی تک انہوں نے کوئی منفی رول نہیں کیا اس کی کیا وجہ ہے، اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ’مجھے زیادہ تر پازیٹیو کردار آفر ہوتے ہیں ایک نئے پراجیکٹ میں نیگیٹو کردار کیا ہے۔ جب آپ بطور ہیروئن کام کریں تو ایک ہی طرح کے رول آفر ہوتے ہیں لیکن چونکہ اب میں بطور کریکٹر ایکٹر آئی ہوں تو اب ہر طرح کا کردار آفر ہو رہا ہے جس سے میں لطف اندوز ہو رہی ہوں۔‘
سنیتا کہتی ہیں کہ ’میں مثبت کردار میں ہر سین میں رو رہی ہوتی تھی، نیگیٹیو میں صرف آخر میں روتے ہیں۔ کردار جاندار ہونا چاہیے چاہے مثبت ہو یا منفی۔‘
ڈرامہ سیریل ’محبت داغ کی صورت‘ میں سنیتا مارشل ایک ایسی عورت کا کردار ادا کر رہی ہیں جو اپنے شوہر سے دب کر رہتی ہے اور اس کی ڈانٹ ڈپٹ خاموشی سے برداشت کرتی ہے۔
سنیتا سمجھتی ہیں کہ ’بدقسمتی سے ہمارے ہاں بہت سی خواتین ایسی ہی زندگی گزار رہی ہیں۔ بہت سے مرد اپنی بیویوں کو دبا کر رکھتے ہیں اور اس کا کوئی حل نہیں نکالا جاتا۔ عورتیں اس ڈر کی وجہ سے کہ ہمیں کوئی نکال نہ دے ہم کہاں جائیں گی، دب کر رہتی ہیں۔ ڈراموں میں جو کچھ دکھایا جاتا ہے وہ ہمارے معاشرے کا حصہ ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ ڈراموں میں روتی دھوتی خواتین کو دکھا کر یہ تاچر کیوں دیا جاتا ہے کہ عورت کمزور ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ’اس ڈرامے میں کچھ تبدیلیاں سامنے آئیں گی جو ابھی نہیں بتاؤں گی لیکن یہ لڑکی اپنے لیے سٹینڈ لے گی۔‘
سنیتا مارشل نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ مختصر لباس پہننا پسند نہیں کرتیں، اس بارے میں جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’میں اس کی وضاحت کروں گی کہ میں پاکستانی کلچر فالو کرتی ہوں لیکن میں انسٹاگرام کے حوالے سے بات کر رہی تھی تو میں نے کہا تھا کہ بہت زیادہ نازیبا کپڑے پہننے سے گریز کرتی ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ضروری نہیں ایسی تصاویر انسٹاگرام پر لگائیں۔ اگر میں پرسنل لائف میں پہن رہی ہوں میں بالکل پہنوں گی لیکن ضروری نہیں ہے کہ میں اسے پبلک فارم پر بھی شیئر کروں۔‘
سنیتا مارشل نے کہا کہ ’ مسئلہ یہ ہے کہ کچھ لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اگر آپ نے جینز بھی پہن لی ہے تو وہ آپ کا کلچر نہیں ہے تو آپ وہ تصویر نہ لگائیں۔ میری نظر میں ایسا نہیں ہے میں بہت زیادہ مختصر کپڑوں کی بات کر رہی تھی۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ ماڈلنگ میں تو ویسٹرن کلیکشن کے لیے بولڈ لباس پہنا جاتا ہے تو اس وقت بھی کیا وہ انکار کر دیتی تھیں، سنیتا نے بتایا کہ ’جب میں نے ماڈلنگ شروع کی تو پہلے دن سے ہی اگر کوئی ایسا لباس ملتا تھا تو میں فوراً انکار کر دیتی تھی۔ جس کی مرضی ہے وہ پہنے لیکن میں نہیں پہنتی تھی۔‘
کیا رنگت کی بنا پر انہیں شوبز میں کسی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا، اس سوال کے جواب میں سنیتا مارشل کا کہنا تھا کہ ’ماڈلنگ میں یہ (رنگ) ایڈوانٹیج ہے لیکن ڈراموں میں ڈس ایڈوانٹیج ہے۔‘
سنیتا مارشل نے بتایا کہ انہوں نے ماڈلنگ کو خیرباد کہہ دیا ہے لیکن اس کے باوجود انہیں رواں سال کے آغاز میں ایک فیشن شو کرنا پڑا تاہم اب ان کا ماڈلنگ کا کوئی ارادہ ماڈلنگ کا کوئی ارادہ نہیں۔ سنیتا کے بقول اب ان کا ماڈلنگ سے ’دل بھر چکا ہے۔‘