رانا شمیم بیان حلفی کیس: کارروائی کے لیے اٹارنی جنرل پراسیکیوٹر مقرر
رانا شمیم بیان حلفی کیس: کارروائی کے لیے اٹارنی جنرل پراسیکیوٹر مقرر
جمعہ 31 دسمبر 2021 14:51
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
عدالت کے مطابق رانا شمیم کے بیان حلفی کو اخبار نے بغیر مناسب احتیاط کے 15 نومبر 2021 شائع کیا (فوٹو: سکرین گریب)
سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف بیان حلفی کیس میں خبر چھاپنے والے صحافیوں اور رانا شمیم کے خلاف توہین عدالت کی فوجداری کارروائی کے لیے اٹارنی جنرل کو پراسیکیوٹر مقرر کر دیا گیاہے۔
جمعے کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے 28 دسمبر کی کارروائی پر چیف جسٹس اطہر من اللہ کا تحریری فیصلہ جاری کردیا۔
بارہ صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں چیف جسٹس نے قرار دیا ہے کہ وہ مطمئن ہیں کہ بادی النظر میں ملزمان کے عمل سے فوجداری توہین عدالت سرزد ہوئی ہے۔
’اس لیے تمام نامزد ملزمان (جنگ گروپ کے انصار عباسی، عامر غوری اور پبلشر میر شکیل الرحمان اور جج رانا شمیم) کے خلاف 2003 کے آرڈیننس کے تحت فرد جرم عائد کرکے کارروائی آگے بڑھائی جائے اور 7 جنوری کو فرد جرم عائد کی جائے۔‘
عدالت نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو کیس میں پراسیکیوٹر مقرر کرتے ہوئے رجسٹرار آفس کو ضروری کارروائی کی ہدایت کی ہے۔
عدالت نے اپنے دلائل میں قرار دیا ہے کہ رانا شمیم کے بیان حلفی کو ملک کے صف اول کے اخبار نے بغیر مناسب احتیاط کے 15 نومبر 2021 شائع کیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بیان حلفی اس عدالت میں جاری کیس کی کارروائی سے متعلق ہے جس کی اپیل 17 نومبر 2021 کو اس عدالت میں سنی جانا تھی۔
’بیان حلفی کا متن اس عدالت اور ججوں پر شکوک کو فروغ دیتا ہے اور بادی النظر میں عدالت کی کارروائی پر اثرانداز ہوتا ہے اور انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ کا باعث ہے۔‘
تحریری فیصلے کے مطابق بیان حلفی کسی عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں ہے اور نہ کسی اور اتھارٹی کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔
’اس بیان حلفی کو چھاپتے وقت تحقیقاتی صحافی نے عدالت کے رجسٹرار سے رابطہ کرکے اس کے متن میں شامل حقائق کی تصدیق کی کوشش نہیں کی کہ کیا جن معزز جج کا ذکر ہے وہ چھٹی پر تو نہیں اور کیا وہ اس بینچ کا حصہ بھی ہیں جس کا ذکر کیا گیاہے۔‘
عدالت نے رانا شمیم کی ساکھ پر بھی سوال اٹھایا اور قرار دیا کہ تین سال تک سابق چیف جسٹس کے مبینہ مس کنڈک کے خلاف ان کی خاموشی ان کے قابل بھروسہ ہونے پر شک ڈالتی ہے اور عام آدمی یہ سمجھ سکتا ہے کہ بیان حلفی کے متن میں کی گئی بات درست نہیں ہے۔
تحریری فیصلے کے مطابق ابتدائی طور پر عدالت کا خیال یہ تھا کہ میر شکیل الرحمان، عامر غوری اور انصار عباسی کا کردار اس معاملے میں صرف اتنا تھا کہ انہوں نے حلف نامے کی شکل میں لیک دستاویز کو چھاپنے سے قبل ضروری احتیاط نہیں کی۔
’بعد میں مؤخر الذکر دو (انصار عباسی اور عامر غوری) کا موقف تھا کہ وہ اس دستاویز کی اشاعت میں حق بجانب تھے کیونکہ یہ عوامی مفاد میں تھا، تاہم یہ موقف بین الاقوامی روایات کے مطابق نہیں ہے کیونکہ صحافی کا کام عوامی مفاد کا تعین کرنا نہیں ہے۔‘
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ دونوں صحافی نہیں جانتے کہ آزادی اظہار کی کچھ حدود ہیں جیسا کہ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے یورپی کنونشن کے آرٹیکل 10 میں واضح کیا گیا ہے۔
فیصلے کے مطابق انصار عباسی اور عامر غوری کا اصرار ہے کہ نتائج کی پراو کیے بغیر ایک خبر کی اشاعت صحافتی ذمہ داریوں کے تحت اظہار رائے کی آزادی کے زمرے میں آتی ہے۔
یاد رہے کہ 28 دسمبر کی عدالتی کارروائی کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کیس میں تمام ملزمان پر 7 جنوری کو فردِ جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مقدمے کی سماعت کے آغاز پر رانا شمیم کے بیان حلفی کے بند لفافے کو کھولنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد اسے دوبارہ سیل کر دیا گیا تھا۔
اس موقع پر رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے بتایا تھا کہ ان کے مؤکل نے بیان حلفی کے متن سے انکار نہیں کیا صرف یہ کہا ہے کہ انہوں نے اس کو پھیلایا نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا تھا کہ کیوں نہ رانا شمیم پر فردِ جرم عائد کر دی جائے۔ ’یہ سنجیدہ معاملہ ہے جس کے نتائج ہوں گے جو اس عدالت اور ججوں پر بھی مرتب ہوں گے۔‘
لطیف آفریدی نے عدالت میں فردوس عاشق اعوان توہین عدالت کیس اور عمران خان کے مقدمات کے حوالے دیے اور کہا کہ ایسے کیسز آتے رہتے ہیں۔
عدالت میں پاکستان بار کونسل کی جانب سے امجد شاہ بھی بطور معاون پیش ہوئے اور انہوں نے کہا تھا کہ جن لوگوں کے نام بیان حلفی میں آئے ہیں ان کے بیان حلفی ریکارڈ ہونے چاہییں۔
اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پاکستان بار کونسل یہ کہہ رہی ہے تو اس کا مطلب ہے اسے بھی اس عدالت پر شک ہے۔
انصار عباسی نے اس موقع پر کہا کہ ان کی خبر میں جو رپورٹ ہوا اس کے مطابق جسٹس ثاقب نثار نے پیغام دیا تھا کہ الیکشن سے پہلے ضمانت نہ ہو، یہ تازہ کیس سے متعلق نہیں تھا۔
’میں اس بیان حلفی کے متن کا دفاع نہیں کروں گا وہ رانا شمیم کریں گے۔ ہمارا کیس رانا شمیم سے مختلف ہے، یہ آزادی اظہار کا کیس ہے۔‘
اس پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا یہ عدالت کبھی آزادی اظہار کے خلاف گئی ہے؟ اس پر انصار عباسی نے جواب دیا کہ ’بالکل نہیں۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ رانا شمیم نے اپنے تحریری بیان میں تسلیم کیا ہے کہ بیان حلفی لیک ہونے سے عدالت کی تضحیک ہوئی ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ بیان انہوں نے لیک نہیں کیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے خیال میں تمام ملزمان کے خلاف فرد جرم عائد کی جائے اور اس کی تاریخ دیں۔
تاہم انہوں نے تجویز پیش کی کہ رانا شمیم اور باقی ملزمان کے پاس موقع ہے کہ وہ معافی مانگ لیں اور مان لیں کہ انہیں کسی نے اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ وہ اگر ایسا کریں تو انہیں معافی دے دی جائے، انسان سے غلطی ہو جاتی ہے۔