ہرست میں موجود خواتین کا کہنا ہے کہ اس نیلامی کا مقصد ان کی تذلیل کرنا ہے۔ (فوٹو: پکسابے)
آپ آدھا گھنٹا ٹوئٹر پر گزاریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ احمقوں کے ساتھ ساتھ دنیا میں سمجھدار لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ ہاں بس آج کل اصل زندگی میں زیادہ نظر نہیں آتے کیونکہ وہ شاید اپنا پورا وقت سوشل میڈیا پر ہی گزار رہے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ اس میں کوئی برائی بھی نہیں ہے۔ وہ تمام جنگیں جو ہماری زندگیوں کو بہتر یا خراب بنا سکتی ہیں، آج کل ٹوئٹر جیسے پلیٹ فارمز پر ہی لڑی، جیتی اور ہاری جاتی ہیں۔
سچ یہ بھی ہے کہ ہم جیسے (ذرا عمر دراز) لوگوں کی زندگیاں دو حصوں میں تقسیم کی جا سکتی ہیں، سوشل میڈیا سے پہلے کی زندگی جب سب اپنے کام سے کام رکھتے تھے، زندگی گھروں میں گزرتی تھی، کبھی فیملی کےساتھ اور کبھی یار دوستوں کے، کہاں گئے کس سے ملے، کیا کچھ کیا، اپنے محدود حلقے کے علاوہ کسی کو خبر نہیں ہوتی تھی، اور سوشل میڈیا کے بعد کی زندگی جب لگتا ہے کہ ہم اپنے بیڈ روم کے کھڑکی دروازے کھول کرسونے کے عادی ہوگئے ہیں، اپنی زندگیوں کو ہم نے کھلی کتاب بنا دیا ہے جسے جب جو چاہے پڑھ سکتا ہے۔
اب وہ زمانے کہاں کہ کسی کے مرنے کے بعد چند تصویریں بتاں اور کچھ حسینوں کے خطوط گھر سے برآمد ہوں۔ نہ محبت چھپائے چھپتی ہے اور نہ نفرت، بس افسوس کہ نفرت کوآج کل کوئی چھپانے کی کوشش بھی نہیں کر رہا۔
اس کی دو تین تازہ مثالیں آپ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیں گی کہ جس راستے پر ہم نکل پڑے ہیں وہاں سے واپسی ممکن بھی ہے یا نہیں۔ تازہ ترین مثال تو ’بُلی بائی‘ کی ہے۔ کسی نے انٹرنیٹ پر ایک ایسا پلیٹ فارم تیار کیا ہے جہاں ممتاز ہندوستانی مسلمان عورتوں کو ’نیلامی‘ کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ ان کی قابل اعتراض مسخ شدہ تصویریں اپلوڈ کی گئی ہیں اور ساتھ میں توہین آمیز ٹیکسٹ۔ ایسا پانچ چھ مہینے پہلے بھی ہوا تھا۔ اس وقت اسے ’سُلی ڈیلز‘ کا نام دیا گیا تھا۔ تفصیل آپ کو سوشل میڈیا پر ہی مل جائے گی۔
اس وقت بھی بہت ہنگامہ ہوا تھا۔ حقوق نسواں اور عورتوں کی آبرو کے تحفظ کی ضرورت، لمحہ فکریہ۔۔۔ معاشرے کا اخلاقی زوال۔۔۔ اور ایسے بہت سے بھاری بھر کم الفاظ کا استعمال کیا گیا لیکن اس کے باوجود کارروائی کسی کے خلاف نہیں ہوئی۔ کوئی گرفتاری نہیں کی جاسکی۔ اس لیے اسی شخص یا گروہ یا انٹرنیٹ کے کسی نئے جنگجو کو اور تقویت ملی، اگر یہ یقین ہو کہ آپ جو چاہے کہہ اور کر سکتے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، تو حوصلہ بلند ہونا لازمی ہے، اور اس لیے سُلی ڈیلز کا سیکوئل ’بُلی بائی‘ کی شکل میں سامنے آیا۔
اس مرتبہ پولیس نے ایک نوجوان کو حراست میں لیا ہے۔ انڈیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مرکز بنگلور سے۔ ممبئی پولیس انجینیئرنگ کے اس 21 سالہ طالب علم سے پوچھ گچھ کرے گی اور ہوسکتا ہےکہ یہ معلوم ہوجائے کہ مسلمان عورتوں کو ’نیلام‘ کرنے میں اس کی کیا دلچسپی ہے، یا اس پوری سکیم کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔
لیکن یہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے۔ اس وقت چاروں طرف جیسے نفرت کا ماحول ہے۔ چند روز قبل پہاڑی ریاست اتراکھنڈ میں ہندو مذہبی رہنماؤں کا ایک اجلاس ہوا جس میں کھلے عام ایسی زبان استعمال کی گئی کہ یقین نہیں ہوتا کہ وہ لوگ ابھی تک آزاد گھوم رہے ہیں۔
اور اب اسی انداز کے ایک اور اجلاس کی تیاری ہے۔ اس میں کیا کہا جائے گا، یہ سمجھنے کے لیے زیادہ دماغ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔
اور پھر یہ جنگ سوشل میڈیا پر لڑی جائے گی۔ ہار جیت کا فیصلہ ظاہر ہے کہ نفری کی بنیاد پر ہوگا اس لیے نفرت پھیلانے والے آسانی سے جیت جائیں گے۔ سچ یہ ہے کہ کچھوے اور خرگوش کی دوڑ میں ہمیشہ خرگوش ہی جیتتا ہے، چاہے درمیان میں وہ کتنی بھی دیر کے لیے سو جائے۔
اور وہ سمجھدار لوگ جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یار کیا کر رہے ہو، یہ آگ مت لگاؤ کیونکہ اسے بجھانا ممکن نہیں ہوگا، پھر چیخنے چلانے کےبعد خاموش ہوکر بیٹھ جائیں گے۔
اس مسئلے کے دو ممکنہ حل ہیں۔ ایک تو سیاسی قیادت کا رول اور دوسرا سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کا رد عمل۔ اگر سیاسی قیادت یہ واضح پیغام دے کہ نفرت پھیلانے والوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا تو بات فوراً ختم ہوسکتی ہے۔ لیکن جیسا کسی نے سوشل میڈیا پر ہی لکھا ہے، ہماری قیادت تو اورنگزیب کے مظالم کا انتقام لینے میں لگی ہوئی ہے۔ بات اصولاً ٹھیک بھی ہے، جابر کو، چاہے وہ بادشاہ ہی کیوں نہ ہو، کیفرکردار تک پہنچانا ضروری ہے ورنہ جبر کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔
یہ بات اہم نہیں ہے کہ تقریباً چار صدی گزر چکی ہیں۔ بات یہ اہم ہے کہ انصاف ہو رہا ہے۔ اسی حساب سے چین کا نمبر بھی آئے گا۔ ترجیحات کی فہرست میں اس کا نام بھی شامل ہے۔ چین کو شاید بس یہ لگ رہا ہےکہ ہم گلوان میں اپنا پرچم پھہرانے کا پروپیگنڈا ویڈیو جاری کرسکتے ہیں، لداخ کی پینگ گانگ جھیل پر پل بنا سکتے ہیں، متنازع سرحد کو اپنی مرضی سے آگے پیچھے کر سکتے ہیں اور کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ ایسا نہیں ہے، اس کے ساتھ بھی انصاف ہوگا لیکن تھوڑا وقت لگے گا۔
اسی طرح جیسے ہی حکمرانوں کو وقت ملے گا، نفرت کا کاروبار کرنے والوں کا بھی نمبر آئے گا۔
لیکن سوشل میڈیا پر نفرت روکنے کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں۔ نفرت کا جواب نفرت سے مت دیجیے۔ یہ کاروبار کرنے والوں کے گراہک مت بنیے۔ صحافیوں کو ایک بنیادی بات سکھائی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی کوئی بات مت کہیے جو آپ اپنے مضامین، ریڈیو یا ٹی وی کے پروگرام میں نہ کہہ سکتے ہوں۔
تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ آپ بھی اس مشورے پر عمل کرسکتے ہیں۔ اگلی بار سوشل میڈیا پر جائیں تو کوئی ایسی بات نہ کہیں جو آپ اپنے بیوی بچوں یا ماں باپ کے ساتھ بیٹھ کر نہ کرسکتے ہوں۔ یہ معمولی سا فلٹر ہے لیکن بہت سے لوگوں کی زندگی بدل سکتا ہے۔
نئے سال میں بس یہ عزم کر لیجیے کہ ہم کسی اور کی نفرت کو آکسیجن فراہم نہیں کریں گے، جو اس میں جلنا چاہیں وہ جلیں۔
اور ہاں، کوشش کیجیے گا کہ سوشل میڈیا سے باہر کی دنیا کو بھی دیکھا جائے۔ وہاں آپ سے ملاقات کا انتظار رہے گا۔