Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چیئرمین نیب کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں عدم شرکت

تاہم پی اے سی کے چئیرمین رانا تنویر حسین نے کہا کہ وہ نیب کے خط کی وضاحت کے لیے کابینہ ڈویژن کو خط لکھیں گے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال پیش نہیں ہوئے اور ان کی جگہ نیب کی جانب سے ایک خط پیش کیا گیا کہ وزیر اعظم نے چیئرمین نیب کی جگہ ڈی جی نیب کو بریفنگ دینے کی منظوری دے رکھی ہے لہٰذا پارلیمانی کمیٹیوں میں اب جسٹس جاوید اقبال کو پیشی سے استثنیٰ مل گیا ہے۔
کمیٹی میں اپوزیشن ارکان نے چئیرمین نیب کی عدم شرکت پر شدید احتجاج کیا اور چئیرمین کمیٹی رانا تنویر حسین نے اجلاس ملتوی کر دیا۔
نیب کے ڈائریکٹر عاصم لودھی کی جانب سے تین جنوری کو لکھے گئے خط میں سیکرٹری نیشنل اسمبلی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم  کی منظوری سے اب چیئرمین نیب کی جگہ ڈی جی نیب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور دیگر کمیٹیوں میں پیش ہوا کریں گے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین نیب آئینی ادارے اور خود مختار اداروں کے سامنے بطور پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر پیش نہیں ہوں گے  جبکہ ان کی نمائندگی ڈی جی نیب (ہیڈکوارٹرز)  تمام کمیٹیوں میں کیا کریں گے۔
خط کے مطابق وزیراعظم نے چیئرمین نیب کی ذمہ داریوں اور قانونی ذمہ داریوں کو مد نظر رکھ کر منظوری دی۔
تاہم پی اے سی کے چئیرمین رانا تنویر حسین نے کہا کہ وہ نیب کے خط کی وضاحت کے لیے کابینہ ڈویژن کو خط لکھیں گے۔ اگر قواعد وزیر اعظم کو چیئرمین کی جگہ ڈی جی کو نمائندگی کا اختیار دیتے ہیں تو تسلیم کریں گے۔
 اجلاس  کے بعد پارلیمینٹ ہاؤس میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب کو پی اے سی میں ہر صورت آنا چاہیے تھا، اس لیے اجلاس موخر کیا گیا۔
​پی اے سی چیئرمین نیب کو خط کے ذریعے بلائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اجلاس چیئرمین نیب کی درخواست پر ان کیمرہ بلایا گیا تھا اور صبح پتہ چلا کہ چیئرمین نیب اجلاس میں نہیں آ رہے۔
رانا تنویر نے بتایا کہ انہیں ڈی جی نیب نے کہا کہ آج کی بریفنگ میں کچھ حساس معلومات ہیں اور  ڈی جی نیب نے مجھے کچھ ایسی معلومات دیں جس پر اجلاس ان کیمرہ کر دیا گیا۔

کمیٹی میں نیب کی جانب سے ایک خط پیش کیا گیا کہ وزیر اعظم نے چیئرمین نیب کی جگہ ڈی جی نیب کو بریفنگ دینے کی منظوری دے رکھی ہے۔ (فوٹو: ریڈیو پاکستان)

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی پوزیشن اور ہے اور چیئرمین نیب کی پوزیشن مختلف ہے اور یہ قابل احتساب ہے۔
رانا تنویر نے کہا کہ حکومت چئیرمین نیب کو جوابدہ نہ بنائے تو یہ زیادتی ہوگی۔ جو پیسے چیئرمین نیب نے اپنے دور میں خرچ کیے ہیں اسے اس کا حساب دینا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ کیبنٹ سیکریٹری ٹیلفونک و تحریری طور پر آگاہ کرے کہ کیا یہ قانون کے مطابق نوٹیفکیشن کیا گیا ہے۔ پی اے سی چئیرمین نے کہا کہ اگر ایک بندہ وزیراعظم کو بہت عزیزہے تو اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔
​اس سے قبل رانا تنویر حسین کی زیرصدارت پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا تو چیئرمین پی اے سی نے میڈیا اور میڈیا کے نمائندوں کو اجلاس سے جانے کا کہا اور بتایا کہ اجلاس ان کیمرا ہے آپ کو بعد میں لکھ دوں گا۔
تاہم پی اے سی کے تمام دیگر ارکان نےاجلاس اوپن رکھنے کا مطالبہ کیا۔ پیپلز پارٹی کی شیری رحمن نے کہا کہ جو بھی بریفنگ دی جائے وہ سب کے سامنے ہونی چاہیے۔
تاہم چئیرمین کا کہنا تھا کہ اجلاس میں کچھ باتیں ایسی ہوں گی جو سب کے سامنے نہیں کی جا سکتیں۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں رکن کمیٹی نوید قمر کا کہنا تھا کہ پی اے سی کے ذریعے ہی آئینی احتساب ہونا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب پارلیمان کے سامنے جوابدہ نہیں ہونا چاہتے۔ چیئرمین نیب چاہتے ہیں سب ان کے سامنے جوابدہ ہوں، وہ خود کسی کے سامنے پیش نہ ہوں۔
نوید قمر نے کہا کہ کل ہر سیکرٹری کہے گا میں مصروف ہوں اس لیے میں جوائنٹ سیکٹری کو بھیج رہا ہوں۔

نوید قمر نے کہا کہ چیئرمین نیب ڈرتے ہیں کہ ان کا نام نہ اچھالا جائے۔ فائل فوٹو: اے پی پی

انہوں نے کہا کہ آج چیئرمین نیب کی اخلاقی اتھارٹی ختم ہو گئی ہے۔ چیئرمین نیب ڈرتے ہیں کہ ان کا نام نہ اچھالا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ کے پاس اختیار نہیں کہ وہ چیئرمین نیب کو پی اے سی میں آنے سے منع کرے۔
سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ  گذشتہ اجلاس میں چیئرمین نیب نے ریکوریز پر پی اے سی کا ان کیمرا اجلاس مانگا تھا اور چیئرمین نیب سے ہم نے رکوریز کے اعداد و شمار مانگے تھے۔
’چیئرمین نیب نے کہا تھا وہ خود آ کر ریکوریز کے اعداد و شمار پیش کریں گے۔  کیا اب پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر نیب کے فیصلے کریں گے؟ ہم نے چیئرمین پی اے سی کو کہا ہے کہ ایسے اجلاس نہیں ہو سکتا۔‘
انہوں نے سوال کیا کہ کیا احتساب اور جوابدہی صرف سیاستدانوں کے لئے ہے۔’سیاستدانوں کے لیے تو نیب ان کیمرا اجلاس نہیں کرتا۔ تفتیش اور ریفرنس سے پہلے باتیں شروع کی جاتی ہیں۔‘
اس موقع پر پی اے سی کے حکومتی رکن نور عالم کا کہنا تھا کہ یہ اجلاس چیئرمین نیب کے کہنے پر بلایا گیا تھا اور ان کیمرہ کیا تھا۔
’اب اچانک نیب کی جانب سے لیٹر آیا ہے کہ پرنسپل اکاؤنٹنگ آفسر بدل گئے ہیں۔لیٹر میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم و کابینہ نے اس کی منظوری دی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر وزیراعظم یا کابینہ کی جانب سے ایسا فیصلہ ہوتا تو ان کی طرف سے لیٹر آتا۔
’مجھے تو لگتا ہے کہ یہ وزیراعظم کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ امید ہے کہ وزیراعظم اس کا نوٹس لیں گے۔‘

شیئر: