حسد آدمی کے اندر داخل ہوتا ہے تو عقل کو باہر کردیتا ہے، تیزی سے پھیلتی نفرتوں کو ختم کرنا ضروری ہے
*تسنیم امجد۔ریاض*
اکثر گھرانوں میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی نجانے کیوں ناشکری کا ساماحول رہتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ قناعت کا دامن نہیں تھامتے اور مسابقتی سوچ سے نہ صرف خود پریشان رہتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی پریشان کرتے ہیں۔ حال ہی میں ایک خاتون سے ملاقات ہوئی، وہ پتہ نہیں کون کون سی شکایات کا دفتر کھول کر بیٹھ گئیں۔ لب لبا ب یہ تھا کہ ہمارے پاس یہ نہیں، وہ نہیں۔ دیکھو فلاں نے کتنا بڑا گھر خرید لیا اور ہم بمشکل10 مرلے پر ہی گھر بناسکے۔ قریب بیٹھی دوسری خاتون نے کہا کہ آپا پریشان کیوں ہورہی ہیں، ہم تو ابھی تک کرائے کے مکان میں ہیں۔ پلاٹ لے لیا ہے، ان شاء اللہ، کبھی تو گھر بھی بن ہی جائے گا۔ اس پر وہ خاتون خاصی ناراض ہوگئیں۔ا ن کی بیٹی بولی کہ اماں کے اس رویے کے اثرات سبھی اہل خانہ پر ہیں۔ اب ہمارے لئے کوئی خوشی اور کامیابی کچھ معنی نہیں رکھتی۔ ایک عجیب احساس کمتری نے سب کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اسی طرح ہماری ایک اور جان پہچان والی کو اپنی ملازمت میں ترقی کا بھوت سوار ہے جس کیلئے وہ سینیئرز کی خوشنودی کے منصوبے بناتی رہتی ہیں۔ انہیں گھر اور بچوں کی کوئی فکر نہیں۔ گزشتہ دنوں ان کی بیٹی بضد تھی کہ ماما میرے کانووکیشن پر چلئے۔ اس دن کا مجھے بہت انتظار تھا۔ مجھے کچھ ایوارڈز بھی ملنے ہیں لیکن وہ بولیں نہیں میری چھٹیوں کا ریکارڈبہترین ہے، میں اسے خراب نہیں کرونگی۔ تم خالہ کو لے جاؤ۔ اس طرح اس خاتون نے ایک حقیقی خوشی نظرانداز کر ڈالی۔ چند ماہ بعد وہی خاتون پچھتاوے کے آنسو بہا رہی تھیں کیونکہ نئے باس نے حکمنامہ جاری کر دیا تھا کہ سارے اسٹاف کی پرانی چھٹیاں ختم ، آئندہ وقت پر ہی سب چھٹی لیا کریں۔ اس خاتون نے،خواہ انہیںکتنی ہی ضرورت کیوں نہ ہوئی، گزشتہ تین برس سے ایک بھی چھٹی نہیں کی تھی ۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر انسان خوب سے خوب تر کا متلاشی رہتا ہے لیکن ماحول اور حالات بعض اوقات اس کی تربیت کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ منفی پہلو زیادہ پنپ جاتے ہیں اور انسان حسد کرنے لگتا ہے۔ اسی طرح مسابقتی رجحان دوسروں سے ان کا مقام چھیننے کی فکر میں رہتا ہے ۔ جب مشن میں کامیابی ملتی ہے تو خود کو تیس مار خان سمجھتا ہے اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ جائے تو سر پیٹنا اس کا مقصد بن جاتا ہے۔ تربیت کے اس انداز میں والدین کا کردار اہم ہوتاہے ۔ بچپن میں وہ اکثر کچھ سمجھاتے ہوئے دوسرے بچوں سے مقابلہ کرتے ہیں۔ اس طرح وہ آداب زندگی کو مسابقتی انداز میں لیتے ہیں۔یوںحسد کے جذبے کی بھی نمو ہوتی ہے جبکہ یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ فطرت نے کوئی سے دو افراد کو یکساں نہیں بنایا۔ ہر ایک کسی نہ کسی پہلو سے دوسرے سے مختلف ہے۔ یہاں تک کہ جڑواں بہن بھائی بھی اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔ مسابقتی جذبوں کے بڑھنے سے خود اعتمادی میں یقینا کمی آجاتی ہے۔ احساس کمتری ہنستی مسکراتی زندگیوں کو روگ لگا دیتا ہے۔ مسز ’’آر‘‘ کو سسرال کے معیار پر اعتراض رہتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی ازدواجی زندگی کو اجیرن بنائے ہوئے ہیں۔ ایک خاتون کسی بھی گیٹ ٹو گیدر میں صرف اس لئے جانے سے کتراتی ہیں کہ ان کا تعلق پسماندہ گاؤں سے ہے۔ ا یسی بچکانہ سوچ کو ہم توانائی کے ضیاع اور ناشکری کانام نہ دیں تو اور کیا کہیں۔ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ آج تقریباً سبھی روزافزوں سہولتوں سے مستفید ہورہے ہیں جبکہ ماضی میں زندگیاں کٹھن تھیں پھر بھی کسی پر اللہ کریم کا انعام دیکھ اکثر لوگ رشک کرتے اور دعا دیتے تھے۔کسی کے گھر کوئی نئی ٹیکنالوجی آتی تو تمام محلے والے اس سے مستفید ہوتے جس پر وہ خوشی محسوس کرتا ۔ منفی رجحانات ، عدم تحفظ یا حسد ایک ایسا مرض ہے جس کا مریض لاعلاج قرار پاتاہے ۔ وہ دوسروں کا فائدہ برداشت نہیں کرسکتا ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
*اپنے اس دل کوسدا بغض سے خالی رکھئے
*حال جیسا بھی ہو، کردار مثالی رکھئے
*داد دیجے اسے کہ لائقِ تحسین ہو جو
*لاکھ دشمن سہی پر ظرف تو عالی رکھئے
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ سماجی محافل و تقاریب ، اتحاد و استحکام کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ ان میں شرکت کا اہم مقصد میل جول ، تعلقات، بھائی چارہ اور اخلاص ہے لیکن اگر یہ صرف فوٹو سیشن تک ہی محدود ہوجائیں تو انہیں وقت کا ضیاع ہی کہیں گے۔ معاشرے میں ایسی اقدار و روایات کا فروغ ضروری ہے جن سے منفی رجحانات کی بیخ کنی ہوسکے۔موجودہ دور میں اس مقصد کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال مفید ثابت ہو گا۔ واٹس ایپ اور فیس بک پر صرف سیلفیوں ہی کا تبادلہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ مثبت پوسٹ یعنی پیغامات کی ترسیل ہونا چاہئے، مسلسل عمل سے یقینابہتر نتائج برآمد ہونگے۔ مفاد پرستی ، نفسانفسی، افراتفری اور انا و تکبر کا زہر حتی الامکان ختم کرنے کی اجتماعی کوششیں یقینا ثمربار ہونگی۔ تیزی سے پھیلتی نفرتوں کو ختم کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ ان بیجوں سے خیر کی فصل کی توقع ناممکن ہے۔ذاتی محاسبہ بہت بہتر ہے جس کی ضرورت ہم سب کو ہے ۔ دوسروں پر نظر رکھنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنا ضروری ہے۔