پنجاب کی جیلوں میں اقلیتوں کی عبادت گاہیں کم کیوں ہیں؟
پنجاب کی جیلوں میں اقلیتوں کی عبادت گاہیں کم کیوں ہیں؟
بدھ 12 جنوری 2022 23:28
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
پنجاب کی 21 جیلوں میں کسی بھی غیر مسلم کے لیے کوئی عبادت گاہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کی جیلوں میں غیر مسلموں کے لیے عبادت گاہیں بہت کم ہیں جبکہ 21 جیلوں میں تو کسی بھی غیر مسلم کے لیے کوئی عبادت گاہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اس بات کا انکشاف اردو نیوز کو موصول ہونے والی ایک محکمانہ رپورٹ میں ہوا ہے۔
خیال رہے کہ پنجاب میں اس وقت کل 42 جیلیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جن اضلاع کی جیلوں میں غیر مسلموں کے لیے عبادات موجود نہیں ہیں ان میں بھکر، اٹک، ساہیوال، ٹوبہ ٹیک سنگھ، بہاولپور اور رحیم یارخان شامل ہیں۔
اس کے علاوہ اس فہرست میں راجن پور، وومن جیل ملتان، جھنگ، بہاول نگر، میانوالی، لودھراں، ڈی جی خان، وہاڑی، شجاع آباد، اوکاڑہ، مظفر گڑھ، اوکاڑہ اور خانیوال کی ضلعی جیلیں بھی شامل ہیں۔
ترجمان محکمہ جیل خانہ جات کے مطابق اس وقت کئی ایسی جیلیں موجود ہیں جن میں غیر مسلموں کے لیے عبادت گاہیں موجود نہیں ہیں۔
’اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ کچھ برسوں سے جیل کے نظام کی بڑے پیمانے پر اصلاحات ہوئی ہیں۔ ان میں ایک بڑی اہم بات جیلوں کو ہر ضلعے کی سطح پر لے کر جانا ہے۔‘
’ہر ضلعے کے قیدی اسی ضلع کی جیل میں ہوں اس سے پہلے ڈویژنل ہیڈکوارٹر کی جیلوں میں مختلف اضلاع کے قیدی ہونے کی وجہ سے دباؤ بہت زیادہ چکا تھا جس کے بعد اب تقریباً ہر ضلعے کی جیل فعال ہے۔ اب قیدیوں کو دیکھا جا رہا ہے کہ کس ضلعی ہیڈ کوارٹر کی جیل میں کتنے غیر مسلم قیدی ہیں اس حوالے سے مستقبل میں عبادت گاہیں ضرور بنائی جائیں گی۔‘
جیل اصلاحات کے لیے کام کرنے والے ادارے جسٹس پیس پروجیکٹ کی سربراہ سارہ بلال نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ’یہ ایک اہم مسئلہ ہے کہ اگر جیلوں میں مساجد بنائی گئی ہیں تو اقلیتوں کے لیے عبادت گاہیں کیوں نہیں بنائی گئیں؟ 'جب آپ کا آئین آپ کے عبادت کرنے کے بنیادی حق کی ضمانت دیتا ہے تو حکومت پر فرض ہے کہ وہ غیر مسلم قیدیوں کے لیے جیلوں میں عبادت گاہیں بنائے۔'
سارہ بلال نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 'اس بات کو ہمیں ایک اور تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے کہ نوآبادیاتی دور سے اس خطے میں جیلوں کے رولز اور ماحول کا ارتقا مختلف انداز میں ہوا ہے۔'
'ہم کچھ عرصے میں ایک بڑی رپورٹ جاری کر رہے ہیں جس میں اس ارتقا پر کھل کر بات کی گئی ہے اور اس میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے معاملے کو بھی اچھے طریقے سے کور کیا گیا ہے۔'