Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قیدیوں کے پاس ہائی سپیڈ انٹرنیٹ، ’ملک بھر کی جیلوں میں اشرافیہ کا تسلط ہے‘

عدالتی حکمنامے کے مطابق ’قیدی کی پٹیشن میں فراہم کی گئی معلومات ہولناک ہیں۔‘ فائل فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک تحریری حکمنامے میں قرار دیا ہے کہ بظاہر ملک بھر کی جیلوں میں اشرافیہ کا تسلط ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کو پنجاب کی بھکر جیل کے ایک قیدی نے خط لکھا ہے جس میں الزام لگایا ہے کہ قتل کیس میں سزایافتہ بااثر مجرم جیل میں بیٹھ کر اسلام آباد میں زمینوں پر قبضے کرانے کا گینگ چلا رہا ہے۔
پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے جاری کیے گئے تحریری آرڈر میں بتایا گیا ہے کہ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے بھکر جیل میں قید ڈاکٹر عرفان اقبال کے خط کو پٹیشن میں تبدیل کر کے وزارت انسانی حقوق کو نوٹس جاری کیا۔
عدالتی آرڈر کے مطابق وزارت انسانی حقوق کے ڈائریکٹر جنرل محمد ارشد نے آگاہ کیا کہ ہائی کورٹ کے نوٹس کے ہمراہ قیدی کا خط ملنے پر بھکر جیل میں ڈاکٹر عرفان اقبال سے رابطہ کیا گیا۔
وزارت انسانی حقوق کے ڈائریکٹر جنرل کے مطابق پنجاب حکومت کو قیدی کا طبی معائنہ کرانے کے انتظامات کے لیے بھی کہا گیا ہے۔
ہائی کورٹ کے تحریری حکمنامے میں لکھا گیا ہے کہ ’قیدی کی پٹیشن میں لگائے الزامات اور بتائی چیزیں ہولناک ہیں جو جیلوں میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو آشکار کر رہی ہیں۔‘
عدالت نے کہا کہ ’انسانی حقوق کی وزیر کی سربراہی میں عملدرآمد کمیشن سے یہ امید کی جاتی تھی کہ وہ آئین میں دیے گئے انسانی حقوق کو جیلوں میں قید افراد کے لیے بھی یقینی بنائیں گی لیکن یہ نظر آتا ہے کہ ملک بھر کی جیلوں میں ایلیٹ/ اشرافیہ کا تسلط ہے۔‘
آرڈر میں کہا گیا ہے کہ ’یہ ریاست کا فرض ہے کہ وہ ہر قیدی کی دیکھ بھال کرے۔‘

قیدی نے لکھا تھا کہ جیل میں سزایافتہ جرائم پیشہ افراد کے پاس ہائی سپیڈ انٹرنیٹ سمیت تمام سہولیات موجود ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

عدالتی حکمنامے کے مطابق ملک کی جیلوں میں زیادہ تر قیدی انڈر ٹرائل ہیں جن کے مقدمات عدالتوں میں زیرسماعت ہیں اور ایسے افراد کو جرم ثابت ہونے تک معصوم تصور کیا جاتا ہے۔
ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ مقدمات میں زیرِحراست ملزمان کی صرف نقل و حرکت کی آزادی کو سلب کیا جاتا ہے، ان کے زندہ رہنے اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت آئین دیتا ہے۔
’قیدیوں کی صرف نقل و حرکت کی آزادی کو ختم کیا جاتا ہے، ان کے انسان ہونے کے حق کو نہیں چھینا جا سکتا۔‘
عدالت کا کہنا ہے کہ قیدیوں سے غیر انسانی سلوک آئین کے آرٹیکلز نو اور 14 میں دیے گئے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
’پٹیشن کے مندرجات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جیلیں جرائم، کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا گڑھ بن چکی ہیں جبکہ اِن کو قیدیوں کی اصلاح کے مراکز اور بحالی کا مرکز ہونا چاہیے۔‘
عدالت نے کہا کہ پٹیشن سے معلوم ہوتا ہے کہ طاقتور افراد جیل حکام کی مدد و تعاون سے قید میں رہتے ہوئے بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں جبکہ دوسری جانب کمزور قیدیوں کے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں۔
ہائی کورٹ نے خادم حسین بنام وزارت انسانی حقوق کیس کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بھکر جیل کے قیدی کے خط سے نظر آتا ہے کہ قیدیوں کے حقوق کو یقینی بنانے کے عدالتی حکم پر عمل نہیں کیا گیا۔

وزارت انسانی حقوق کے ڈائریکٹر جنرل کے مطابق پنجاب حکومت کو قیدی کا طبی معائنہ کرانے کے لیے کہا گیا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

عدالت نے وزارت انسانی حقوق کو ہدایت کی ہے کہ یہ بات یقینی بنائی جائے کہ چیف جسٹس کو خط لکھنے والے قیدی کو ہراساں نہ کیا جائے اور معاملے کی مکمل انکوائری کر کے رپورٹ پیش کی جائے۔
خیال رہے کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو لکھے گئے دو صفحات کے خط میں قیدی ڈاکٹر عرفان اقبال نے جیل انتظامیہ اور پنجاب کے آئی جی جیل خانہ جات پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے تھے۔
قیدی نے لکھا تھا کہ جیل میں سزایافتہ جرائم پیشہ افراد کے پاس ہائی سپیڈ انٹرنیٹ سمیت تمام سہولیات موجود ہیں جن کے ذریعے وہ اسلام آباد میں اپنا گینگ چلا رہے ہیں۔

شیئر: