دل سے دلی: الیکشن کے ’خفیہ‘ امیدوار اور ’قائداعظم کی گونج‘
دل سے دلی: الیکشن کے ’خفیہ‘ امیدوار اور ’قائداعظم کی گونج‘
بدھ 26 جنوری 2022 6:23
معصوم دہلوی -نئی دہلی
اتر پردیش میں بی جے پی کا مقابلہ سماج وادی پارٹی سے ہے۔ فوٹو: انڈیا ٹی وی
جیسے جیسے انڈیا کی پانچ ریاستی اسمبلیوں کے الیکشن میں شدت آ رہی ہے کچھ نقاب ہیں کہ سرکتے جا رہے ہیں۔ لیکن کچھ مضبوطی سے اپنی جگہ قائم ہیں۔
پہلے وہ نقاب جو سرک رہے ہیں۔ انڈیا کے ایک بڑے ٹی وی چینل نے خبر دی ہے کہ اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی نے خفیہ طور پر مزید دس مسلمان امیدواروں کو ٹکٹ دیے ہیں لیکن ان کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
یہ غیر معمولی صورتحال ہے۔ یہ دنیا کی پہلی سیاسی پارٹی ہوگی جو امیدواروں کو ٹکٹ بھی دے رہی ہے لیکن ووٹروں کو نہیں بتا رہی۔ یہ لوگ چپ چاپ الیکشن لڑ لیں گے اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوگی۔ جیت گئے تو جشن منائیں گے ہار گئے تو پوری سچائی سے کہہ سکیں گے کہ ہم تو الیکشن لڑے ہی نہیں تھے۔
بات ذرا پیچیدہ لگتی ہے لیکن پیغام بہت سادہ ہے اور وہ آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ جب بھی ووٹروں کے ذہن میں سماج وادی پارٹی کا نام آئے تو مسلمانوں کی تصویر بھی ابھرنی چاہیے، ایسے مسلمانوں کی جن میں سے کچھ کے خلاف مقدمات قائم ہیں اور اس کے باوجود انہیں انتخابی میدان میں اتارا جا رہا ہے۔
بس اتنا سمجھ لیجیے کہ کچھ چینل اس الیکشن کو مذہب سے جوڑنے میں لگے ہوئے ہیں اور یہ ان کی کاوشوں کی ایک چھوٹی سی مثال ہے کیونکہ امیدواروں کی فہرست آج نہیں تو کل جاری کی ہی جائے گی۔
لیکن اگر ٹکٹوں کی تقسیم سے بھی سازش کی بو آئے تو کیا حرج ہے؟ اور یہ بھی بتاتے چلیں کہ اتر پردیش میں تقریباً بیس فیصد مسلمان ہیں لیکن 403 میں سے بی جے پی کا ایک بھی ٹکٹ کسی مسلمان کو نہیں ملا۔ ہاں، اس کی ایک اتحادی جماعت اپنا دل نے رامپور سے ایک مسلمان کو میدان میں اتارا ہے۔
الیکشن جیتنے کے لیے لڑے جاتے ہیں۔ اگر بی جے پی پھر بھی اپنی فراق دلی میں بیس فیصد ووٹر دوسری جماعتوں کےلیے چھوڑنا چاہتی ہے تو اس کی تعریف کی جانی چاہیے۔ وہ ایسا نہ کرے تو ریاستی اسمبلی سے حزب احتلاف کی جماعتوں کا بالکل ہی صفایا ہو جائے۔
خِیر الیکشن ابھی شروع ہوا ہے اور جیسا ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ یو پی میں فی الحال بی جے پی آگے نظر آتی ہے۔ ٹی وی چینلوں کے جائزوں پر تو ہم زیادہ بھروسہ نہیں کرتے کیونکہ اکثر اوقات یہ غلط ہی ثابت ہوتے ہیں لیکن آج کے حالات کی روشنی میں اگر ہم سے پیشن گوئی کرنے کو کہا جائے تو بی جے پی نمبر ایک پر ہے اور اس کا مقابلہ سماج وادی پارٹی سے ہے۔ تیسرے اور چوتھے نمبر کے لیے کانگریس اور مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی میں ٹکر ہوگی۔
فی الحال تو دو تین ہی اہم انتخابی موضوع ہیں: ہندو، مسلمان، پاکستان، قبرستان، ابا جان، وائدے اعظم ( قائداعظم نہیں)، اورنگزیب، رام مندر۔۔۔ جب نوکریوں، غربت اور کاروبار کی بات شروع ہوگی تو آپ کو اطلاع کریں گے۔
دوسری کہانی نقاب کی نہیں حجاب کی ہے جسے جنوبی ریاست کرناٹک میں کچھ لڑکیوں نے مضبوطی سے سنبھال رکھا ہے۔ وہاں ایک کالج نے کلاس روم میں حجاب پہننے پر پابندی لگا دی ہے جس کی وجہ سے چھ لڑکیوں کو تقریباً ایک مہینے سے کلاس اٹینڈ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
لڑکیوں کا کہنا ہے کہ انہیں حجاب پہننے کا حق حاصل ہے اور کالج کا کہنا ہے کہ وہ مذہبی علامتوں کی اجازت نہیں دیتا۔ کالج کا اعتراض اپنی سمجھ سے باہر ہے۔ بھائی، سکول کالج میں بچے پڑھنے آتے ہیں انہیں پڑھنے دیجیے۔ کس نے کیا پہنا ہے اس بحث میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔
کم کپڑے پہننے پر اعتراض کرتے تو شاید بات سمجھ میں آ سکتی تھی لیکن زیادہ کپڑے پہننے پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ کل کو کیا آپ سکھ طالب علموں سے کہیں گے کہ وہ پگڑی باندھ کر سکول نہ آئیں؟
اب سنا ہے کہ دو دیگر کالجوں میں بھی بائیں بازو کی جماعتوں سے وابستہ طالب علم حجاب پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
انڈیا میں آج کل اس طرح کےتنازعات آسانی سے حل نہیں ہوتے، لڑکیاں کلاس میں حجاب کے ساتھ لوٹتی ہیں یا یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ اپنے کیریئر بچانے کے لیے فی الحال اس محاذ سے پیچھے ہٹنا اور تعلیم جاری رکھنا بہتر ہے، جو بھی ہو نوبت یہاں تک آنی ہی نہیں چاہیے تھی۔
لیکن بات گھوم پھر کر الیکشن اور سیاست پر ہی لوٹ آتی ہے۔ جب تک ووٹر شمشان گھاٹ اور قبرستان کی سیاست میں الجھے رہیں گے تب تک اس طرح کے واقعات پیش آتے رہیں گے۔ چاہے وہ سکول کالج ہوں یا ٹی وی چینل۔
یو پی کے الیکشن سے ایک حد تک اس طرح کی سیاست کا مستقبل طے ہوگا۔ یہ ڈیمانڈ اور سپلائی کا بنیادی اصول ہے۔ اگر آپ خود ہی ہندو مسلمان کے نام پر ووٹ دینا چاہتے ہیں تو لیڈر آپ سے نوکریوں کی بات کیوں کریں گے؟