Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانوی راج کے وہ سپاہی جن کی پینشن آج بھی پاکستان میں آتی ہے

دوسری عالمی جنگ میں تقریبا 25 لاکھ برٹش انڈین فوجیوں نے چھ سال کی لمبی جنگ میں حصہ لیا۔ (فوٹو: ویکیپیڈیا)
حضرت علی ہجویری کے مزار کے قریب لاہور کےعلاقے احمد پارک، موہنی روڈ کی اس نسبتا کھلی گلی میں غلام فاطمہ کا گھر ہے۔ وہ ضعیف ہو چکی ہیں ان کا زیادہ تر وقت بستر پر ہی گزرتا ہے۔
جنوری کی پانچ تاریخ کو انہوں نے اپنے شوہر کی 14 ہزار روپے کی پینشن وصول کی۔ جو برطانوی حکومت کی طرف سے ان کو ہر مہینے وصول ہوتی ہے۔  
غلام فاطمہ کے شوہر کا نام پھمن خان ہے اور ان کا تعلق امرتسر سے تھا۔ غلام فاطمہ بتاتی ہیں ’پھمن خان ہانک کانگ میں تھے جب دوسری عالمی جنگ میں ان کی ایک ٹانگ ختم ہو گئی تو وہ واپس آگئے۔ میری ان سے اس وقت شادی نہیں ہوئی تھی۔ وہ امرتسر میں رہتے تھے، ہم لاہور میں تھے۔ لیکن ہم ان کو جانتے ضرور تھے۔‘
غلام فاطمہ نے اپنی یاداشت پر زور دیتے ہوئے بتایا کہ ’بٹوارے کے وقت وہ بھی لاہور آ گئے اور پھر چار پانچ سالوں کے بعد ہماری شادی ہوئی گئی۔ اس وقت ان کی پینشن 20 روپے آتی تھی۔‘  
پھمن خان اور ان کے ساتھی فوجی جو دوسری عالمی جنگ میں ہانک کانگ کے محاذ پر برطانوی فوج کی طرف سے لڑتے ہوئے زخمی ہوئے تھے ان کو بعد ازاں ریٹائر کرنے کے بعد برطانوی حکومت نے پینشن جاری کی۔  
سینٹرل پنجاب کے جنرل پوسٹ ماسٹر ضیاالحق رانجھا نے اردو نیوز کوبتایا کہ ’اس وقت سینٹرل پنجاب میں چھ ایسے پینشنرز ہیں جن کی پینشنز برطانیہ سے آ رہی ہیں۔ جن میں تین فیصل آباد دو جھنگ اور ایک لاہور میں ہے۔‘  
خیال رہے کہ پورے پاکستان میں اس وقت ان پینشنرز کی تعداد 200 کےلگ بھگ ہے اور ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں۔ ان کی بیوائیں ہی یہ پینشن وصول کر رہی ہیں۔

غلام فاطمہ کو 2020 سے پہلے چارہزار روپے ملتے ہیں جو اب 14 ہزار روپے ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: فری پک)

غلام فاطمہ کی بیٹی رضیہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ برطانیہ سے ہر سال ان کو ایک خط آتا ہے جس میں وہ پوچھتے ہیں کہ غلام فاطمہ ابھی تک زندہ ہیں یا نہیں۔
’ہم ہر سال ان کو جوابی خط لکھتے ہیں جس میں بتاتے ہیں کہ ابھی وہ زندہ ہیں تو اس طرح ان کی پینشن آنے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے بعض اوقات وہ ہمیں یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی تازہ ترین تصویر بھیجی جائے تو ہم ایک تصویر بھی بھیجتے ہیں اور ان کا شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات بھی ہر سال ہم برطانوی حکومت کو بھیجتے رہتے ہیں۔‘
گزشتہ دو برسوں میں دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ کے لیے لڑنے والے فوجیوں کی پینشنز کے حوالے سے کافی اہم تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ برطانیہ نے ملک سے باہر مقیم تمام پینشنرز کی پینشنز ملک کے اندر مقیم افراد کے مقابلے میں کم کر دی تھیں لیکن 2020 میں ایک ایگزیکٹیو فیصلے کے ذریعے جن ملکوں میں یہ افراد مقیم ہیں ان کی رائج پالیسی کے مطابق پینشنز بڑھا دی ہیں۔  
غلام فاطمہ کو 2020 سے پہلے چار ہزار روپے ملتے ہیں جو اب 14 ہزار روپے ہو چکے ہیں۔  
پاکستان میں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو ڈاک خانے کے ذریعے ہی پینشنز دی جاتی ہیں۔ تاہم دوسری عالمی جنگ کے برطانوی فوجیوں کے لیے ہانگ کانگ والے، برما والے یا انڈیا والوں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔  
یاد رہے کہ دوسری عالمی جنگ میں تقریبا 25 لاکھ برٹش انڈین فوجیوں نے چھ سالہ طویل جنگ میں حصہ لیا۔ یہ فوجی اتحادی فوجوں کے ساتھ پورے یورپ، افریقہ اور ایشیا میں لڑتے رہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق ان میں سے 90 ہزار فوجی ہلاک ہوئے۔  

انڈین فوجی اتحادی فوجوں کے ساتھ یورپ، افریقہ اور ایشیا میں لڑتے رہے۔ (فوٹو: آئی ڈبلیو ایم لندن)

حال ہی میں انڈیا میں ایک زندہ برطانوی فوجی بلوت سنگھ نے 97 سال کی عمر میں سپریم کورٹ میں اپنی پینشن کا مقدمہ جیتا ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ کہ انہیں بھی اتنی پینشن دی جائے جتنی باقی ریٹائرڈ فوجیوں کو ملتی ہے۔ انڈٰیا نے 1972 میں فوجیوں کی پینشنز بڑھائی تھیں لیکن ان میں وہ افراد نہیں آئے جو 1947 سے پہلے زخمی ہو کر ریٹائرڈ ہوئے۔ بلوت سنگھ نے تب سے انڈین حکومت پر مقدمہ دائر کر رکھا تھا۔  
پاکستان میں اب بھی دو سو افراد کی پینشنز فوج کے ملٹری اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ سے قومی ڈاک خانے کے ذریعے ان بیواوؤں کو دی جا رہی ہے جن کی عمر تقریبا سو سال کے قریب ہو چکی ہیں۔  
غلام فاطمہ 1929 میں پیدا ہوئی تھیں اور اب ان کی عمر 95 سال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں کچھ پتا نہیں کہ ان کے شوہر کو ہانگ کانگ والا کیوں کہتے ہیں۔  

شیئر: