Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ججز، بیوروکریٹس اور سرکاری ملازمین کے لیے پلاٹس سکیم غیر آئینی قرار

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ججز، بیوروکریٹس اور سرکاری ملازمین کے لیے وفاقی دارالحکومت کے چار خصوصی سیکٹرز میں پلاٹس الاٹ کرنے کی سکیم کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا ہے ریاست کی طرف سے حاصل کی گئی زمین صرف عوامی مفاد کے لیے ہے نہ کہ صرف اشرافیہ کے چند افراد کے لیے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی کی جانب سے جمعرات کو جاری کیے گئے 64 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں سیکٹرز ایف 12، جی 12، ایف 14اور ایف 15کی اسکیم کو غیرآئینی، غیر قانونی اور مفاد عامہ کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ’ لگتا ہے وزیراعظم اور کابینہ کو اس کے اثرات سے اندھیرے میں رکھا گیا۔ کابینہ کے سامنے پیش کیے گئے ریکارڈ میں نہیں بتایا گیا کہ الاٹمنٹس کیلئے سلیکشن کا طریقہ کار کیا تھا۔‘ 
عدالت کے مطابق اہم ترین پہلو یہ وفاقی کابینہ نے مفادات کے ٹکراو کو نظر انداز کر دیا۔
 فیصلے کے مطابق  سیکٹر ایف 14اور15 کی  قرعہ اندازی میں شفافیت نہیں تھی۔
عدالت کے مطابق ایک لاکھ 35 ہزار سے زائد ملازمین میں سے ایک لاکھ 26 ہزار کو نظرانداز کیا گیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کے ملازمین یا ججز کا فرض ہے کہ وہ حقیقی سٹیک ہولڈرز عوام کی خدمت کریں۔ ہاؤسنگ سکیم اور اس پر نظر ثانی شدہ پالیسی مفاد عامہ کے خلاف ہے۔ اشرافیہ کا کا خزانے اور عوام کو نقصان پہنچا کرامیر ہونا آئینی معاشرے میں ناقابل قبول تصور ہے۔پلاٹس کی الاٹمنٹ کا طریقہ کار میں شفافیت ثابت کرنے کیلئے کچھ نہیں دکھایا گیا۔

فیصلے کے مطابق نظرثانی شدہ پالیسی میں وکلا اور صحافیوں کو نکال دیا جانا بھی قابل غور پہلو ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حیران کن طور پر پلاٹس کے بینیفشریز میں اعلیٰ عدلیہ کے موجودہ اور ریٹائرڈججز شامل ہیں۔ کم سن گھریلو ملازمہ تشدد  کیس میں سزا یافتہ جبکہ رشوت وصولی کے اعتراف اور انضباطی کارروائی پر برطرف ججز بھی پلاٹس لینے والوں میں شامل تھے ۔ 
’اسلام آباد ہائیکورٹ اور ماتحت عدلیہ نے کبھی پلاٹس پالیسی میں شمولیت کی درخواست نہیں دی۔کوئی وضاحت نہیں دی گئی بغیر درخواست کے پالیسی میں کیوں شامل کیا گیا؟‘
فیصلے کے مطابق نظرثانی شدہ پالیسی میں وکلا اور صحافیوں کو نکال دیا جانا بھی قابل غور پہلو ہے۔
عدالت نے سیکریٹری ہاؤسنگ کو دو ہفتے میں فیصلہ کابینہ کے سامنے رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے توقع کی کہ وزیراعظم اور کابینہ مفاد عامہ کے تحت  پالیسی بنائیں گے۔ 

شیئر: