اپوزیشن اس بار حکومت کو گھر بھیجنے میں کامیاب ہو سکے گی؟
اپوزیشن اس بار حکومت کو گھر بھیجنے میں کامیاب ہو سکے گی؟
پیر 7 فروری 2022 21:15
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
مظہر عباس کے مطابق حکومت کی جانب سے جلسوں کے اعلان نے اس سال کو الیکشن کا سال بنا دیا ہے۔ (فوٹو: پی ایم ایل ن)
لاہور میں ہونے والی ہنگامہ خیز سیاسی ملاقاتوں اور اپوزیشن کے حکومتی اتحادیوں سے رابطوں نے ملکی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فیصلہ کن سیاسی معرکہ شروع ہو گیا ہے۔
سوموار کو لاہور میں مسلم لیگ ن کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اہم اجلاس میں موجودہ حکومت کے خاتمے کے لیے تمام اقدامات پر اتفاق کیا گیا تو دوسری طرف حکومت کی جانب سے رابطہ عوام مہم کے تحت سیاسی جلسوں کے اعلان نے ملک میں انتخابی ماحول پیدا کر دیا ہے۔
سوموار کو ہی لاہور میں اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے پی ٹی آئی حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے رہنماؤں سے عشائیے پر ملاقات کی۔
یہ ملاقات پیپلزپارٹی قیادت کی ن لیگ کی قیادت سے ملاقات کے دو روز بعد ہو رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے ایک پریس کانفرنس میں یہ بھی اعلان کیا ہے کہ حکومت کی ایک اور اتحادی جماعت ایم کیو ایم کا وفد بھی مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف سے ملاقات کرے گا۔ گویا طبل جنگ بج گیا ہے اور سیاسی معرکہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوا چاہتا ہے۔
وزیراعظم اور سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر اتفاق
اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سینئیر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کے لیے بالآخر سنجیدہ ہو گئی ہے۔ ’اپوزیشن کا خیال ہے کہ تحریک عدم اعتماد میں کامیاب ہو گئے تو حکومت گر جائے گی اور اگر کامیاب نہ بھی ہوئے تو اگلے الیکشن کے لیے حکومت کے خلاف اچھا خاصا سیاسی ماحول بنا لیں گے۔‘
ایک سوال پر سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کی کامیابی اور ناکامی کا امکان ففٹی ففٹی ہے۔ ان کے مطابق حکومت کے خلاف عدم اعتماد کو کامیاب کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ ’اس سے پہلے ایک دفعہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت ہٹانے کی سنجیدہ کوشش تین عشرے قبل بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمی کے دور میں ہوئی تھی تاہم وہ کامیاب نہیں ہوئی تھی۔‘
کیا اتحادی جماعتیں حکومت کی کمزوری ہیں؟
سیاسی امور کے ماہر پروفیسر رسول بخش رئیس کے مطابق اتحادی جماعتوں کی وجہ سے حکومت کمزور پوزیشن میں ہے۔ اگر مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم اپوزیشن سے مل جائیں تو حکومت پارلیمنٹ میں اکثریت برقرار رکھنے میں ناکام ہو جائے گی اور نئے انتخابات کروانے ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ اتحادی جماعتیں حکومت کا ساتھ دیں گی کیونکہ ان کا پی ٹی آئی کے ساتھ کوئی نظریاتی لگاؤ نہیں ہے۔
’یہ اقتدار کا کھیل ہے اور فصلی بٹیروں کو اپنی سیاست کرنا ہوتی ہے اس لیے وہ حکومت کو چھوڑ بھی سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر اپوزیشن حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاتی ہے تو کامیابی کی صورت میں آئین کے تحت انہیں متبادل حکومت بھی مہیا کرنا ہو گی۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد بال صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی کورٹ میں ہوگی اور صدر دوسری بڑی سیاسی جماعت یعنی مسلم لیگ ن کو حکومت بنانے کی دعوت دیں گے اور اگر وہ نہ بنا سکے تو بحران پیدا ہو جائے گا اورایسی صورت میں وزیراعظم صدر کو پارلیمنٹ تحلیل کرنے کا مشورہ دے سکتے ہیں جس کے بعد نئےانتخابات کرانے ہوں گے۔
سیاسی تجزیہ کار مظہر عباس کے مطابق حکومت کی جانب سے جلسوں کے اعلان نے اس سال کو الیکشن کا سال بنا دیا ہے۔ ’ضروری نہیں کہ الیکشن اسی سال ہوں مگر اس سال الیکشن کا ماحول ضرور بن گیا ہے اور سیاسی گرما گرمی یقینی طور پر بڑھے گی۔‘
’عمران خان کی جانب سے جلسوں کے اعلان سے لگ رہا ہے کہ حکومت کے لیے چیزیں خراب ہو رہی ہیں کیونکہ حکومت مدت ختم ہونے سے ڈیڑھ سال پہلے کبھی ایسا نہیں کرتی نہ ایسی فضا بناتی ہے۔‘
مظہر عباس کے مطابق اپوزیشن تو چاہتی ہے کہ حکومت کے لیے مسائل پیدا کرے اور سیاسی ماحول ہنگامہ خیز بنائے مگر حکومت ایسا نہیں چاہتی وہ تو چاہتی ہے سرمایہ کاری آئے اور ماحول بہتر ہو۔
’حکومت عام طور پر آخری ڈیڑھ سال میں کارکردگی پر توجہ دیتی ہے تاکہ الیکشن سے قبل ووٹ بینک مضبوط کیا جا سکے۔‘ ان کا کهنا تھا که حکومت بھی جلسے کرے گی اپوزیشن بھی جلسے کرے گی تو عوام کا کیا ہوگا؟
مظہر عباس کے مطابق حکومت کا فیصلہ دانشمندانہ نہیں اسے چاہیے تھا کہ جلسوں کے بجائے اتحادیوں سے رابطے بڑھاتے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتی اتحادی صرف اسی صورت میں تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کی حمایت کریں گے جب انہیں سوفیصد یقین ہو کہ اپوزیشن کامیاب ہو جائے گی۔