پاکستان کے وفاقی حکومت میں شامل اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) نے وفاقی کابینہ میں مزید وزارتیں مانگ لی ہیں۔
بی اے پی نے کہا ہے کہ پارٹی وفاق میں پی ٹی آئی کی غیر مشروط طور پر حمایت کرکے تھک چکی ہے اس لیے اب پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کی جائے گی۔
باپ پارٹی کے رہنماؤں کا اہم اجلاس گزشتہ شب کوئٹہ میں ہوا جس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو اور پارٹی کے سینیٹ، قومی اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے شرکت کی۔
مزید پڑھیں
-
سکیورٹی فورسز کا کیچ میں سرچ آپریشن، مزید تین عسکریت پسند ہلاکNode ID: 641736
ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا کہ اجلاس میں پارٹی کے نئے صدر کے لیے کہدہ بابر کا نام تجویز کرنے کے علاوہ وفاق میں مزید وزارتیں لینے کے لیے عمران خان کی حکومت سے احتجاج کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے سینیٹر کہدہ بابر نے اردو نیوز کو بتایا کہ وفاقی کابینہ میں بلوچستان کی نمائندگی بہت کم ہے جسے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی 12 سینیٹرز اور پانچ ارکان قومی اسمبلی کے ساتھ تحریک انصاف کی سب سے بڑی اتحادی جماعت ہے۔ ہم نے شروع سے ہی موجودہ حکومت کی غیر مشروط طور پر حمایت کی ہے لیکن وفاقی کابینہ میں بی اے پی کو اس کا جائز حق نہیں دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلی حکومتوں میں وفاقی کابینہ میں بلوچستان کے چار سے پانچ نمائندے ہوتے تھے مگر اس کابینہ میں بلوچستان سے صرف ایک وزیر بی اے پی کی زبیدہ جلال ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ کم از کم پانچ وفاقی وزرا یا وزرا مملکت بلوچستان سے ہونے چاہیے ان کا تعلق بی اے پی سے ہو یا تحریک انصاف سے۔
ان کا کا کہنا تھا کہ بلوچستان سے اگر اختر مینگل صاحب کو بھی وزیر بنایا جاتا ہے تو ہمیں اعتراض نہیں۔
کہدہ بابر کے مطابق ہمارا مطالبہ ہے کہ وزارت تجارت، انڈسٹریز اور پورٹ اینڈ شپنگ جیسی وزارتیں بلوچستان کو دی جائیں جس کے ذریعے بلوچستان میں ہم لوگوں کو ملازمتیں اور ترقیاتی منصوبے دے سکیں۔
باپ پارٹی کے اجلاس کے بعد سرکاری طور پر جاری کیے گئے اعلامیہ میں کہا گیا کہ ’اجلاس میں پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کا فیصلہ کیا گیا۔ ارکان نے مطالبہ کیا کہ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو وزیراعظم عمران خان کو پارٹی تحفظات سے آگاہ کریں اگر مطالبات پورے نہ کیے گئے تو بی اے پی آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی۔‘

کہدہ بابر کا کہنا تھا کہ گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں تحریک انصاف سے کئی بار اس معاملے پر بات کی گئی مگر ہم سخت احتجاج اس لئے نہیں کرسکیں کہ پہلے جام کمال تھے اور اب عبدالقدوس بزنجو وزیراعلیٰ ہیں۔ دونوں کا رویہ تبدیل ہے۔ جام کمال نے اس سلسلے میں کوئی اقدام نہیں اٹھایا مگر عبدالقدوس بزنجو وفاق میں موجود اپنی جماعت کے پارلیمنٹرینز کے ساتھ ساتھ کھڑے ہیں۔
تجزیہ کار شاہد رند کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کے آپس میں اور حکومت کے اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق سے رابطے ہورہے ہیں اس صورتحال میں مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت مشکل میں ہے اس لیے بی اے پی ٹائمنگ کا بہتر استعمال کرکے بارگینگ کی پوزیشن میں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ باپ پارٹی کے انتخابات قریب آرہے ہیں اس لیے پارٹی کے سرکردہ رہنما انتخابات میں حمایت کے حصول کے لیے اپنی جماعت کے پشتون پارلیمنٹرینز میں سے کسی ایک کو فاقی کابینہ میں ایڈجسٹ کرانا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کابینہ میں بلوچ علاقوں کی نمائندگی زبیدہ جلال کی صورت میں موجود ہے مگر کوئی پشتون رہنما کسی عہدے پر موجود نہیں۔
یاد رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی میں بھی جام کمال کے بعد عبدالقدوس بزنجو کے گروپ میں بھی اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔ ظہور احمد بلیدی نے حزب اختلاف کو 30 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز دینے پر وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی سخت مخالفت کی ہے جس کے بعد سینئر صوبائی وزیر ترقی و منصوبہ بندی سے ہٹانے کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔
عبدالقدوس بزنجو گروپ کی جانب سے جام کمال کے مقابلے میں ظہور احمد بلیدی کا پارٹی کو سربراہ اورصوبائی پارلیمانی لیڈر مقرر کیا گیا تھا۔
