Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وفاقی سرکاری ملازمین کو ملنے والا ڈسپیرٹی الاؤنس کیا ہے؟

سرکاری ملازمین نے تنخواہیں بڑھانے کے لیے حکومت کو 10 فروری کی ڈیڈلائن دی تھی۔ فائل فوٹو
پاکستان کی وفاقی حکومت نے گریڈ 1 سے 19 تک کے سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہوں پر 15 فیصد تک ڈسپیرٹی الاؤنس دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکومت کی جانب سے اس فیصلے کو ملکی معیشت کی بہتری کا مظہر قرار دیا جا رہا ہے۔
وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’صحت کارڈ کے بعد تنخواہوں میں 15 فیصد مزید اضافہ، اس وقت ملک میں معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو رہی ہے انشااللہ ایک سال میں آمدنیوں میں مزید اضافہ ہو گا عمران خان پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت بنا رہے ہیں اور تمام اقدامات اسی منشور کو سامنے رکھ کر لیے جا رہے ہیں۔‘
لیکن فواد چودھری تنخواہوں میں جس اضافے کی بات کر رہے ہیں کیا وہ حکومت کا معاشی بہتری کے نتیجے پر کیا جانے والا فیصلہ ہے؟
معاشی ماہرین کے مطابق ایسا نہیں ہے بلکہ ڈسپیرٹی الاونس وفاقی حکومت کے مختلف اداروں کے درمیان ملازمین کی تنخواہوں میں پائے جانے والے فرق کو کم کرنے کی ایک کوشش ہے۔
معاشی امور کو کور کرنے والے صحافی خلیق کیانی کے مطابق ’وفاقی حکومت کے کئی ایک ادارے جن میں سپریم کورٹ، ایف بی آر، پارلیمنٹ، ایوان صدر، وزیراعظم آفس اور کچھ دیگر ادارے ایسے ہیں جنھوں نے کئی ایک الاونسز کی مد میں اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کر رکھا ہے۔ یہ اضافہ ایک سے تین گنا تک فرق پیدا کر چکا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اگر وفاقی سیکرٹریٹ میں ایک وزارت کے گریڈ 19 کے افسر کی تنخواہ ایک لاکھ روپے ہے تو ایوان صدر یا اس طرح کے دیگر اداروں میں کام کرنے والے اسی گریڈ کی افسر کی تنخواہ اڑھائی سے تین لاکھ روپے بن رہی ہے۔‘
خلیق کیانی کا کہنا تھا کہ ’اسی بنیاد پر گزشتہ سال فروری میں سرکاری ملازمین نے پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے شدید احتجاج کیا تھا۔ حکومت کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں اس وقت بھی حکومت نے 25 فیصد ڈسپیرٹی الاونس دیا تھا۔ اب چونکہ ساتھ ساتھ مہنگائی بھی بڑھ رہی ہے تو گزشتہ ماہ سرکاری ملازمین نے پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے تنخواہوں میں موجود اس فرق کو کم کرنے کے لیے حکومت کے سامنے اپنے مطالبات رکھے تھے اور آج یعنی 10 فروری کی ڈیڈ لائن دی تھی۔ اس شدید احتجاج کے پیش نظر حکومت نے 15 فیصد ڈسپیرٹی الاونس دینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

اسلام آباد میں سرکاری ملازمین نے تنخواہیں بڑھانے کے لیے شاہراہ دستور پر کئی بار احتجاج بھی کیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

معاشی ماہر ساجد امین کے مطابق ’ملکی معیشت میں بہتری کے دعوے اپنی جگہ درست ہوں گے لیکن حقیقت میں اس وقت مہنگائی اور ملکی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ تحریک انصاف جیسی جماعت بھی غیرمقبول سیاسی اقدامات کی اپنی پالیسی سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ ماضی میں جب بھی کسی طبقے بالخصوص سرکاری ملازمین نے احتجاج کیا حکومت نے واضح الفاظ میں کہا کہ وہ ان سے بلیک میل نہیں ہوں گے لیکن آدھے خیبرپختونخوا میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں شکست نے حکومت کو اپنے فیصلے بدلنے پر مجبور کیا ہے۔‘
ان کے مطابق ’اس وقت چاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ عام انتخابات میں بھی زیادہ عرصہ باقی نہیں بچا۔ کے پی حکومت کے پاس رپورٹس ہیں کہ سرکاری ملازمین نے حکومت کے خلاف نہ صرف ووٹ دیے بلکہ ووٹ دلوائے بھی جس وجہ سے انھیں اب سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں موجود فرق کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ڈسپیرٹی الاونس دینا پڑا۔‘
پاک سیکرٹریٹ کے ملازمین کے مطابق ’ہمارے مطالبات تنخواہوں میں فرق کو ختم کرنے، مہنگائی الاونس دینے، گریڈ ایک سے گریڈ 16 کے درمیان پے سکیل پر نظرثانی اور ایڈہاک ریلیف کو بنیادی تنخواہ میں ضم کرنے کے تھے۔ جن میں کچھ پر عمل ہوا ہے اور کچھ پر عمل درآمد کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ہم نے وقتی طور پر احتجاج ختم کیا ہے لیکن مکمل فرق کے خاتمے تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔‘

حکومت کی جانب سے تنخواہیں بڑھانے کے فیصلے کو ملکی معیشت کی بہتری کا مظہر قرار دیا جا رہا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

احتجاج کرنے والوں کے مطابق ’سپریم کورٹ کے ملازمین کی تنخواہیں عام سرکاری ملازمین سے تین سو فیصد، ایف بی آر کی دو سو فیصد، ایوان صدر 15 فیصد اور پارلیمنٹ کی 100 فیصد زائد ہیں جبکہ گریڈز وہی ہیں جو دیگر سرکاری ملازمین کے ہیں۔ ہم اس فرق کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اس کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔‘

شیئر: