’ججز کی تنخواہ قانون کے مطابق ہے تو کوئی بھی معلومات لے سکتا ہے‘
جمعرات 30 دسمبر 2021 12:14
اسلام آباد ہائی کورٹ نے درخواستیں قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا. فوٹو اے ایف پی
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر ججز کی تنخواہ قانون کے مطابق ہے تو کوئی بھی شہری اس کی معلومات لے سکتا ہے۔
جمعرات کو سپریم کورٹ ملازمین کی معلومات شہری کو فراہم کرنے کے حکم کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ عدلیہ کی آزادی سے متعلق ہے، شہری کو یہ نہیں لگنا چاہیے کہ اس سے کچھ چھپایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہری کا عدالت پر اعتماد سب سے زیادہ اہم ہے۔
عدالت میں موجود درخواست گزار نے کہا کہ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں کتنی آسامیاں ہیں اور ان کا طریقہ کار کیا ہے۔
’کسی بھی جمہوری نظام میں شہریوں کی معلومات تک رسائی نہیں ہے تو پھر وہ نظام چل نہیں سکتا۔‘
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ آئینی عدالتوں سے متعلق معلومات قانون کے مطابق فراہم نہیں کی جا سکتیں جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ قانون معلومات کی فراہمی کے قانون سے متصادم کیسے ہو سکتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ قانون بنانے والوں نے اگر آئینی عدالتوں کو اس سے باہر رکھا ہے تو اس میں کیا غلط ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’اگر یہ عدالت وفاقی قانون کے تحت بنائی گئی ہو تو پارلیمنٹ کل تہس نہس کر دے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ، فیڈرل شریعت کورٹ اور یہ ہائی کورٹ آئینی عدالتیں ہیں، آئینی عدالتوں کو ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئینی عدالت کی معلومات کی فراہمی قانون کے مطابق نہیں کی جا سکتی۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 19 کہاں روکتا ہے کہ آئینی اداروں کی معلومات نہیں فراہم کی جائے گی۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 19 میں مناسب پابندیوں کا بھی ذکر ہے اور یہ معلومات اس میں آتی ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا قومی اسمبلی اور سینیٹ بھی آئینی ادارے ہیں ان کی معلومات بھی پبلک نہیں ہو سکتیں۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمنٹ کے حوالے سے قانون میں ایسا کچھ موجود نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کی معلومات بھی اسی حدود میں آتی ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا تمام آرمڈ فورسز کی معلومات بھی اس حدود میں آتی ہیں، کیا آرمڈ فورسز بھی آئینی ادارے ہیں یا وفاقی قانون سے بنے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ وفاقی قانون کے تحت بنائے گئے ادارے ہیں آئینی نہیں ہیں۔
خیال رہے کہ رجسٹرار سپریم کورٹ اور سیکرٹری قانون نے پاکستان انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کر رکھا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے رجسٹرار سپریم کورٹ اور وزارت قانون کی درخواستیں قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔