Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فیض احمد فیض ایک دبنگ ایڈیٹر!

چار فروری 1947 کو پاکستان ٹائمز نے اپنی اشاعت کا آغاز کیا۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)
شاعر کی حیثیت سے فیض احمد فیض کے بلند مقام کی وجہ سے بطور اخبار نویس ان کی شناخت صحیح معنوں میں اجاگر نہیں ہو سکی۔ ان کی پہلو دار شخصیت کا یہ پہلو دبا ہی رہا جبکہ وہ تاریخ کے ایک اہم دور میں پاکستان ٹائمز کے چیف ایڈیٹر تھے اور اس منصب پر رہ کر جو اہم خدمات انہوں نے انجام دیں وہ کسی طور نظر انداز نہیں کی جا سکتیں۔
ہم نے اس مضمون میں فیض کی پاکستان ٹائمز سے وابستگی کا زمانہ، ان کے تعلق سے روشن کرنے کی سعی کی ہے جس کے وسیلے سے ایک یادگار دور کی جھلکیاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

میں اتنا بڑا پرچہ کیسے چلا سکتا ہوں؟

فیض احمد فیض کے پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر بننے کی خبر نے سب کو حیران کیا کیونکہ انہیں عملی صحافت کا بالکل کوئی تجربہ نہیں تھا اور خود بقول فیض، وہ تو صحافت کی اے بی سی بھی نہیں جانتے تھے۔
معروف ترقی پسند صحافی اور دانشور عبداللہ ملک نے اپنی کتاب ’پرانی محفلیں یاد آ رہی ہیں‘ میں لکھا ہے کہ ایڈیٹر کے لیے ان کا نام سجاد ظہیر نے تجویز کیا ہوگا۔ چند اور نام بھی میاں افتخار الدین زیر غور لائے لیکن قرعہ فال فیض کے نام نکلا۔
فیض کو دلی میں میاں افتخار الدین نے جب یہ آفر دی  تو انہوں نے کہا: ’میاں صاحب آپ کمال کر رہے ہیں۔ میں نے جرنل ازم میں کبھی قدم نہیں رکھا۔ میں اتنا بڑا پرچہ کیسے چلا سکتا ہوں؟ نا بابا معاف کریں۔‘
فیض نے لیت و لعل سے کام لیا لیکن میاں افتخار الدین نے ان کو چیف ایڈیٹر بننے پر راضی کر ہی لیا۔ انہیں فوج سے ریلیز کرایا جہاں ان کی تنخواہ 25 سو روپے تھی۔
پاکستان ٹائمز میں ایک ہزار مشاہرہ مقرر ہوا۔ ایک انگریز اخبار نویس ڈیسمنڈ ینگ، صحافت کے رموز سکھانے پر مامور ہوا۔ میاں افتخار الدین نے باغبانپورہ میں اپنی حویلی میں قیام کی پیشکش کی لیکن فیض نے فلیٹی ہوٹل کے قریب فلیٹ میں رہائش اختیار کی جہاں سے دفتر پیدل آیا جایا جا سکتا تھا۔
اس پرآشوب زمانے کو یاد کرتے ہوئے فیض نے ڈاکٹر ایوب مرزا کو بتایا: ’اب 1947 کے فسادات کا زمانہ۔ ہم رات کے دو بجے اخبار کے دفتر سے پیدل گھر جا رہے ہیں، پیچھے ذرا سی سرسراہٹ ہوتی تو گمان ہوتا کہ ہوا میں چاقو لہرایا۔ قدم تیز اٹھاتے ہم اس جہادِ دگر میں مصروف، شب کی تنہا تاریکیوں میں اکیلے فلیٹی کی طرف رواں رہتے۔‘
چار فروری 1947 کو پاکستان ٹائمز نے اپنی اشاعت کا آغاز کیا تو اس وقت لاہور سے دو انگریزی اخبار ’ٹریبیون‘ اور ’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ نکل رہے تھے۔ فیض اور ان کی ٹیم نے جس کے اہم ترین رکن مظہر علی خان تھے، اخبار کو کامیاب بنانے کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ نتیجتاً پاکستان ٹائمز نے جلد ہی ایک معیاری پرچے کی حیثیت حاصل کر لی۔

فیض احمد فیض کا پاکستان ٹائمز میں ایک ہزار مشاہرہ مقرر ہوا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

پروگریسیو پیپرز لمیٹڈ نے 1948 میں اردو روزنامے امروز کا اجرا کیا تو اس کی ادارت کے لیے فیض نے ممتاز صحافی اور ادیب مولانا چراغ حسن حسرت کا انتخاب کیا، جن کی علمیت اور صحافیانہ لیاقت کے وہ بہت قائل تھے۔

فیض کی اداریہ نویسی

فیض نےاداریہ نویسی میں نئی طرز ایجاد کی جس کے بارے میں ڈاکٹر آفتاب احمد نے ’بیاد صحبت نازک خیالاں‘ میں لکھا: ’فیض صاحب نے اپنی صحافتی زندگی کی ابتدا میں واقعی بڑی محنت کی تھی۔ انہوں نے پاکستان ٹائمز میں اداریہ نویسی کا ایک نیا ڈھنگ نکالا اور اس کو ایک ادبی ذائقہ بھی دیا۔ ان کے اس زمانے کے اداریوں میں دو تین آج بھی میری یاد میں محفوظ ہیں۔ ایک تو شاید 1951 کے اوائل میں جب لیاقت علی خان نے کامن ویلتھ کے وزرائے اعظم کی کانفرنس میں شرکت کے لیے اس بنا پر پس وپیش کی کہ اس میں کشمیر کا مسئلہ بھی زیر بحث لایا جائے اور پھر کسی واضح یقین دہانی کے بغیر ہی شرکت کے لیے روانہ ہوگئے تو فیض نے Westward Ho  کے عنوان سے ایک اداریہ لکھا جو والٹر اسکاٹ کے ایک ناول کا نام ہے۔ یہ Charles Kingsley)  کا ناول ہے) وہاں کشمیر پہ کوئی خاص بات نہیں ہوئی اور لیاقت علی خان خالی ہاتھ واپس آئے تو فیض کے ادارے کا عنوان تھا  The Return of the Nativeجو ٹامس ہارڈی کے ایک ناول کا نام ہے۔‘
ڈاکٹر آفتاب احمد نے مخزن کے مدیر، شیخ عبدالقادر کے انتقال پر اداریے کا بھی ذکر کیا ہے جو فیض نے ان کے بقول ’دل کی گہرائیوں میں ڈوب کر لکھا تھا۔‘
فیض نے ایک اداریے میں معاصر عالمی صورت حال پر لکھاری کے کردار پر بات کی تو ٹینی سن کی نظم  Ring Out Wild Bellsسے اس کا عنوان مستعار لیا:
Ring out the old
اسی نظم کی ان لائنوں پر اداریہ ختم ہوتا ہے:
 Ring out the thousand wars of old,
Ring in the thousand years of peace.
معروف صحافی خالد حسن نے اپنے ایک مضمون میں قائد اعظم کی وفات پر فیض کے اداریے  To God we return کو کلاسیک قرار دیا ہے۔
اقبال کے انتقال کو 10 سال ہونے پر فیض کے اداریے کا بھی وہ حوالہ دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں، فیض کے اسلوب میں ژرف نگاہی اور کاٹ کا امتزاج ملتا ہے۔ خالد حسن کے بقول ’جارج آرویل کا فقرہ مستعار لوں تو میں کہوں گا کہ فیض کی تحریر کھڑکی کے شیشے کی طرح شفاف ہوتی تھی۔‘

فیض احمد فیض نے گاندھی جی کے انتقال پر Long Live Gandhiji  کے عنوان سے اداریہ لکھا۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

فیض نے گاندھی جی کے انتقال پر Long Live Gandhiji  کے عنوان سے اداریے میں ان کی عظمت کو سلام پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ان کا گزر جانا ہندوستان کی طرح پاکستان کے لیے بھی بہت اندوہناک ہے۔ ان کی موت نے اہل لاہور کو جس طرح اداس اور غمگین کیا اس کے بارے میں اپنا مشاہدہ بیان کیا۔ ان کی یاد میں پاکستان میں قومی تعطیل اور شہریوں کی ہڑتال کا حوالہ دیا۔ فرقہ پرست ہندو رہنماؤں پر گرفت کی جو مسلمانوں کو انڈیا سے باہر نکالنے کی بات کر رہے تھے۔

دبنگ ایڈیٹر

پاکستان ٹائمز نے تحریک پاکستان کے عروج کے دنوں میں مسلم لیگ کے ترجمان اخبار کی حیثیت سے اپنا سفر شروع کیا۔ اس کی پیشانی پر قائد اعظم کا نام بطور بانی شائع ہوتا تھا۔ کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا اور ترقی پسند، مطالبہ پاکستان کے حامی تھے، اس لیے نظریاتی اعتبار سے فیض پر نئی ذمہ داری کے سلسلے میں کوئی ذہنی دباؤ نہیں تھا۔
آزادی کے بعد فیض نے پاکستان ٹائمز کو سرکاری اخبار کے بجائے اپوزیشن کا اخبار بنا دیا۔ پنجاب میں مسلم لیگی رہنماؤں کے طرز سیاست پر تنقید کی۔ 1946 کے الیکشن کا منشور شائع کر کے عوام سے کیے وعدے پورے کرنے کا مطالبہ کیا۔ اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کے لیے آواز بلند کی۔ کسانوں اور مزدوروں کا مقدمہ لڑا۔ سامراج دشمن پالیسی اختیار کی۔ مخلوط طریقہ انتخاب اپنانے پر زور دیا۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کے خلاف توانا مؤقف اپنایا۔ ڈان کے ایڈیٹر، الطاف حسین اس ایکٹ کی حمایت میں پیش پیش تھے اور دوسرے ایڈیٹروں کو ہمنوا بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ فیض کے زیر ادارت اخبار جب ان کی راہ پر نہ آیا تو انہوں نے The Curse of Socialism کے عنوان سے اداریہ لکھ مارا تو انہیں اس کا جواب، پاکستان ٹائمز میں  lackey-ism کے عنوان سے اداریے کی صورت میں ملا، جس کی الطاف حسین کو توقع نہیں تھی، اس پر وہ بڑے پریشان ہوئے اور ’جنگ بندی‘ کے لیے فیض سے رابطہ کر کے دونوں اخبارات میں سیز فائر ممکن بنایا۔
آگے چل کر فیض نے جیل اور الطاف حسین نے ایوب خان کی کابینہ کا رخ کرنا تھا۔ اپنی اپنی چوائس کی بات ہے۔
 1948میں امروز میں ایک خبر کی اشاعت پر ایک ڈی ایس پی کو اپنی توہین محسوس ہوئی۔ اس نے اخبار کے خلاف فوجداری مقدمہ دائر کیا اور فیض کی گرفتاری کا وارنٹ لے کر اخبار کے دفتر آن دھمکا۔ فیض اپنے ساتھیوں کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔ ضمانت پر رہائی سے انکار کیا اور کیس کی فوراً سماعت کی درخواست کی۔ ان کی داد رسی ہوئی اور مقدمہ چند ہی گھنٹوں میں خارج ہو گیا۔ عدالت سے واپسی پر فیض نے امروز میں صحافتی کیریئر کا سخت ترین اداریہ لکھا جو ان کے دستخطوں کے ساتھ شائع ہونے والا واحد اداریہ ٹھرا۔

پطرس بخاری کی بھی ہاکستان ٹائمز سے اعزازی وابستگی رہی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ماتحتوں سے رویہ

فیض کے زمانہ ادارت میں، مولوی محمد سعید اخبار کے نیوز ایڈیٹر رہے۔ انہوں نے اپنی کتاب Lahore: A memoir میں ایک واقعے کا ذکر کیا ہے جس سے ماتحتوں کے ساتھ فیض کے رویے کی بابت پتا چلتا ہے۔
محمد سعید نے بتایا ہے کہ ’ایک روز فیض نیوز روم میں آئے اور مجھے باہر بلایا، پھر تقریباً سرگوشی کے انداز میں کہنے لگے کہ فلاں فلاں خبر کا ڈبل کالم لگنا نہ بنتا تھا، میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ فیض صاحب آپ کو اس بات کا پورا اختیار ہے کہ مجھے نیوز روم میں ڈانٹ دیں۔‘
محمد سعید نے یہ بھی لکھا کہ ان کے ساتھی جمیل احمد کہا کرتے تھے کہ غلطی کرنے کے بعد فیض صاحب کا سامنا کرنا ہمیشہ بہت زیادہ  embarrassingہوتا کیونکہ وہ جس نرم لہجے میں گرفت کرتے ہیں لگتا ہے کہ جیسے آپ کی غلطی پر وہ معافی کے طلب گار ہوں۔

جیل میں بھی اخبار کے معیار کی فکر میں غلطاں

1951 میں فیض راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار ہوگئے۔ جیل جا کر بھی وہ پاکستان ٹائمز کے معاملات سے غافل نہیں ہوئے۔
اخبار میں کہیں کوئی کمی کوتاہی ہوتی تو اس کی نشاندہی کرنے میں انہیں تامل نہ ہوتا۔ ایلس فیض کے نام ایک خط سے معلوم ہوتا ہے وہ کس قدر باریک بینی سے اخبار کا جائزہ لیتے تھے:’مظہر کو یہ پیغام پہنچا دینا کہ اخبار کی پروف ریڈنگ اور سب ایڈیٹنگ پہلے سے بہتر ہے۔ لیکن تمام سب ایڈیٹر حضرات ایک اور بات سے غافل ہوگئے ہیں۔ کبھی بہت پرانی خبریں چھپ جاتی ہیں اور کبھی ایجنسیوں اور نامہ نگاروں کی خبروں میں بہت سی تکرار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر 21 جون کے شمارے میں ایک خبر 18 جون کی تاریخ سے چھپی ہے اور کم از کم پانچ دوسری خبریں دو یا تین دن پرانی ہیں۔ یہ باسی مال قطعی غیر اہم خبروں پر مشتمل ہے جنہیں حذف کر دینے میں کوئی مضائقہ نہ تھا۔‘
’اسی تاریخ کے امروز میں بعض کافی ضروری خبریں ایسی ہیں جو پاکستان ٹائمز میں نہیں چھپی ہیں۔ کسی ایک خبر میں بھی سول اینڈ ملٹری گزٹ سے پیچھے رہ جانا پاکستان ٹائمز کو زیب نہیں دیتا اور مجھے امید ہے کہ مظہر میری تنقید کا برا نہیں مانیں گے۔‘

فیض احمد فیض کی ٹیم کے اہم ترین رکن مظہر علی خان تھے۔ (فوٹو: فلِکر)

جیل سے واپسی

 1955 میں جیل سے رہائی کے بعد فیض نے پاکستان ٹائمز میں اپنی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھال لیں، لیکن اب اخبار میں ان کی دلچسپی پہلے کی طرح نہیں رہی جس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ مظہر علی خان نے ان کی غیر موجودگی میں اخبار کو نہایت کامیابی سے چلایا اور اب فیض ان کے کام میں دخل نہیں دینا چاہتے تھے، لیکن اخبار کی پالیسی کی تشکیل میں ان کا کردار باقی رہا۔ احمد علی خان نے ایک انٹرویو میں بتایا: ’جیل سے رہا ہونے کے بعد وہ دوبارہ چیف ایڈیٹر کے طور پر آ گئے۔ اس محدود وقت میں وہ اداریہ نویسی کرتے رہے۔ ایک ماہ میں چار پانچ اداریے وہ خود لکھتے تھے۔ مجھے اور مظہر علی خان کو پالیسی بریف کیا کرتے تھے۔‘
 لدمیلا وسیلئیوا نے ’پرورش لوح و قلم: فیض، حیات اور تخلیقات‘ میں لکھا :’فیض پھر سے پاکستان ٹائمز میں کام کرنے لگے۔ وہ پہلے کی طرح اخبار کے مضامین میں دوٹوک انداز میں سرکاری سیاست کے خلاف آواز اٹھاتے تھے اور حکومت کی داخلی پالیسی کو عوام دشمن اور خارجہ پالیسی کو امریکہ نواز کہنے سے گھبراتے نہیں تھے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کا اخبار اشتراکی ممالک سے تعلقات کی بہتری کی طرف حکومت کے ہر قدم کا خیر مقدم کرتا تھا۔‘

فیض کا غضب ناک ہونا

فیض احمد فیض یوں تو مرنجاں مرنج آدمی تھے۔ سخت کلمات کہنے سے گریز کرتے۔ ایک موقع پر البتہ ان کو بہت غصہ آیا۔ 1959 میں پروگریسو پیپرز لمٹیڈ پر فوجی حکومت کے قبضے کے بعد، ایک پولیس افسر نے انہیں حکومت کا یہ پیغام پہنچایا کہ وہ پاکستان ٹائمز اور امروز کے چیف ایڈیٹر بن جائیں۔ یہ سن کر فیض ہتھے سے اکھڑ گئے اور پولیس والے سے کہا ’دفع ہو جاؤ۔‘
فیض نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ زندگی میں پہلی دفعہ وہ کسی سے اس قدر غیرشائستگی سے پیش آئے۔ 

پطرس اور پاکستان ٹائمز

پاکستان ٹائمز میں بڑے ناموروں نے کام کیا۔ چوٹی کے قلم کاروں نے اس میں لکھا۔ فیض سے دوستی کی بنا پر پطرس بخاری کی اس سے اعزازی وابستگی رہی، یہ بات لیکن کم ہی لوگوں کے علم میں ہے۔
بعض بڑے اہم موقعوں پر وہ اخبار کے دفتر میں رات بھر رہے۔ مثلاً ایک رات فیض کے ہاں مجلس میں صوفی تبسم، چراغ حسن حسرت ،ایم ڈی تاثیر، پطرس بخاری، عابد علی عابد اور آغا بشیر احمد موجود تھے۔ محفل اپنے رنگ پر تھی کہ ٹیلیفون پر فیض کو قائد اعظم کے انتقال کی اطلاع ملی۔ فیض نے مہمانوں سے کہا کہ وہ چاہیں تو رکیں لیکن انہیں دفتر جانا ہوگا۔

ایلس فیض کے نام ایک خط سے معلوم ہوتا ہے کہ فیض احمد فیض کس قدر باریک بینی سے اخبار کا جائزہ لیتے تھے۔ (فوٹو: ریڈف)

پطرس بخاری نے کہا ہم بھی چلتے ہیں۔ دفتر پہنچ کر، فیض اداریہ لکھنے میں مصروف ہوگئے۔ پطرس بخاری قائد اعظم کی سوانح عمری مرتب کرنے لگے۔ پطرس بخاری کی اس رات دفتر میں موجودگی کا ذکر کرنے کے بعد فیض نے جو لکھا کہ اس سے ان کی پاکستان ٹائمز سے تعلق کی کہانی پتا چلتی ہے: ’بخاری صاحب کو صحافت یا خالص سیاسی کاروبار سے لگاؤ نہ تھا لیکن انہوں نے اسی ڈھب سے کئی راتیں پاکستان ٹائمز کے دفتر اور چھاپے خانے میں بسر کیں۔ گاندھی جی کے قتل کی رات، پریس میں نئی روٹری مشین چالو ہونے کی رات، 13 اور 14 اگست کی درمیانی رات، اب شاید یہ بتا دینے میں بھی مضائقہ نہیں کہ اس زمانے کے پاکستان ٹائمز کے تین چار اداریے اور مختلف ناموں سے بہت سے مراسلے بخاری صاحب ہی کے قلم سے ہیں۔‘
’مراسلوں کے کالم میں ایک پُرلطف بحث مجھے خاص طور سے یاد ہے جو ہفتوں چلتی ہے، اس کا سہرا دراصل ان حقیقی یا فرضی بزرگ کے سر ہے جو مولوی قینچی کے نام سے مشہور تھے اور بقولِ خلق ہر بے نقاب خاتون کی چٹیا پر دست درازی کی فکر میں رہتے تھے۔ ایسے دو چار واقعات سننے میں آئے تو بخاری صاحب نے مولوی صاحب کی خدمت میں اور بے نقاب خواتین کی حمایت میں ایک بہت ہی مؤثر مراسلہ میر وومین کے نام سے لکھا، اس پر آزادی نسواں کے حامیوں اور مخالفین میں بہت زوروں کی بحث چلی اور جب تک چلتی رہی بخاری صاحب ان میں سے بیشتر خطوط کی تصحیح و ترتیب پاکستان ٹائمز کے دفتر میں بیٹھ کر خود کرتے رہے۔‘

فیض کی غلطی

اپریل 1949 میں ’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ میں ایک خبر شائع ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان اور بھارت کشمیر کی تقسیم پر راضی ہوگئے ہیں۔ یہ خبر درست نہیں تھی۔ اس پر حکومتِ پاکستان برافروختہ ہوئی۔ اخبار نے خبر پر اعتذار شائع کیا۔ نئی دلی کے اس نامہ نگار کو برطرف کیا جس نے خبر فائل کی تھی۔ اخبار کے ایڈیٹر ایف ڈبلیو بسٹن نے غلطی کا ازالہ کرنے کی اپنی سی کوشش کی لیکن حکومت ان کے اقدامات پر مطمئن نہ ہوئی۔ ’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ کے خلاف اخبارات کے ایڈیٹر صاحبان بھی میدان میں کود پڑے۔ ’غداری‘ کے عنوان سے ایک مشترکہ اداریہ رقم ہوا جس میں ’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ کی خبر کو غداری قرار دے کر حکومت سے اخبار پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا۔

مجموعی اعتبار سے فیض احمد فیض کا صحافتی کیریئر اجلا اور بے داغ رہا۔ (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)

یہ اداریہ مغربی پاکستان کے 16 اخبارات میں شائع ہوا، جس کے بعد ’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ پر چھ ماہ کی پابندی لگ گئی۔ ممتاز صحافی ضمیر نیازی کے بقول :’اخبار اس سرکاری اقدام کے اثرات سے کبھی نہ سنبھل سکا۔ اس کی تعداد اشاعت اور کاروبار دونوں تباہ ہوگئے۔‘
’مشرقی پاکستان کے اخباروں نے اس دن دہاڑے قتل میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔‘
افسوس کی بات ہے کہ ’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ کے خلاف اس صحافت دشمن فیصلے کو فیض کی تائید بھی حاصل تھی جنھوں نے یہ مشترکہ اداریہ پاکستان ٹائمز میں شائع کیا۔ وہ سرکاری اور ایڈیٹر صاحبان کا  دباؤ سہار نہ سکے۔ اس فیصلے سے آزادی صحافت کو بڑی زک پہنچی۔ پاکستان ٹائمز پر اس لیے بھی زیادہ تنقید بنتی ہے کہ وہ ’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘ کا حریف اخبار تھا، سو اس کے خلاف کارروائی سے اسی نے سب سے زیادہ مستفید ہونا تھا۔
ضمیر نیازی نے ابرار صدیقی کے حوالے سے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ میاں افتخار الدین نے جو مشترکہ اداریے کی اشاعت کے وقت ملک سے باہر تھے وطن واپسی پر فیض کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ  ’ایک دن آئے گا جب یہی ہتھکنڈے پی پی ایل کے اخباروں کے خلاف استعمال ہوں گے۔‘
ضمیر نیازی کے بقول ’میاں صاحب کی پیش گوئی 1958 میں ایوب خان کے دور حکومت میں پوری ہوئی جب پی پی ایل کے تمام اخباروں پر حکومت نے قبضہ کر لیا۔‘
فیض نے بعد میں اپنی اس غلطی کو تسلیم کر لیا تھا۔

فیض کا نظریہ صحافت

 اوپر بیان کردہ واقعے سے ہٹ کر مجموعی اعتبار سے فیض کا صحافتی کیریئر اجلا اور بے داغ رہا۔ فیض کے نظریہ صحافت کی صراحت  کے لیے ان کا کام اور روشن کردار ہی کافی ہے لیکن مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زبانی یہ معلوم ہو جائے کہ ایک اخبار کا بنیادی فریضہ کیا ہے۔ ’اگر اخبارات سے ملکی سیاست کی اصلاح اور عوام کے سیاسی شعور کی تربیت نہیں ہوتی تو ان کی ظاہری خوبیاں بیکار ہیں۔ اخبارات کے یہی دو نمایاں فرض ہیں۔ اگر کوئی اخبار ان دو فرضوں سے بخوبی عہدہ برا نہیں ہوتا تو میرے خیال میں وہ اخبار کہلانے کا مستحق نہیں۔
فیض نے صحافت میں ایڈیٹر کے رتبے کو عزت بخشی۔ اخبارات کا اعتبار قائم کیا۔ ایڈیٹر اور اخبار جب اپنے اصل کام سے ہٹے تو فیض سے زیادہ اس کا رنج اور کسے ہوتا: ’اب تو صحافت ایک تجارت بن گئی ہے۔ موجودہ اخبارات کے مالکوں اور ایڈیٹروں کو سیاست اور ادب سے کوئی گہرا لگاؤ نہیں۔ ان کے ذاتی اغراض ہیں اور وہ بھی خالص تجاری نوعیت کے۔ وہ انہیں اغراض کے حصول کی خاطر گٹھ بندی اور جوڑ توڑ میں مصروف رہتے ہیں۔ آج سے چند برس پہلے اخبار کا ایڈیٹر بڑی عزت کا مالک ہوتا تھا۔‘

شیئر: