نور مقدم قتل غیرت کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے: وکیل ظاہر جعفر
نور مقدم قتل غیرت کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے: وکیل ظاہر جعفر
بدھ 16 فروری 2022 13:06
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
وکیل کا کہنا تھا کہ نور مقدم اپنی مرضی سے ظاہر جعفر کے گھر جاتی تھیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد میں سابق سفیر شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل سکندر ذوالقرنین نے اپنے حتمی دلائل دیتے ہوئے تفتیش پر متعدد سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’اس کیس کے دوران پولیس نے اکلوتے بھائی کو شامل تفتیش نہیں کیا اور یہ غیرت کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے۔
نور مقدم کیس کی سماعت بدھ کو ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں ہوئی جس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل سکندر نے ذوالقرنین نے حتمی دلائل دیے۔
ملزم کے وکیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہو سکتا ہے بھائی پولیس کی جانب سے بنائی جانے والی کہانی کا ساتھ نہ دینا چاہتا ہو۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’مدعی نے بیان میں کہا ہے کہ جب وہ 19 جولائی کو گھر پہنچے تو پتہ چلا کہ نور گھر پر موجود نہیں جبکہ پراسیکیوشن کا کہنا ہے کہ نور مقدم 18 جولائی کو چھلانگ لگا کر جائے وقوعہ سے فرار ہوئی۔‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک دن تک بچہ گھر نہ لوٹے اور والدین پریشان نہ ہوں اور پولیس کو خبر نہ کریں۔‘
سکندر ذوالقرنین کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکار کے بیان کے مطابق جب وہ موقع پر پہنچے تو بالائی منزل پر کچھ لوگ موجود تھے، جبکہ پوری تفتیش میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ ’کچھ لوگ‘ کون تھے؟
بیان میں مزید بتایا گیا کہ مقتولہ کی لاش پڑی تھی اور چار پانچ لوگوں نے ظاہر کو پکڑا ہوا تھا، وہیں سے ملزم کو گرفتار کیا گیا، مگر ان ’کچھ لوگوں‘ کو کیوں چھوڑ دیا گیا۔
دلائل دیتے ہوئے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ ’جب نور مقدم چھلانگ لگا کر باہر آئیں اور ظاہر نے ان کو بند کر دیا، کیا کسی نے ظاہر کے ہاتھ میں کوئی اسلحہ دیکھا، ہو سکتا ہے ملزم نے نور کو کسی سے بچانے کے لیے بند کیا ہو۔‘
انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ایف آئی آر میں سر تن سے جدا کرنے کا ذکر تو موجود تھا لیکن خون کا ذکر موجود نہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی کسی کا گلا کاٹے اور ہاتھوں پر خون نہ لگے۔
وکیل کے مطابق ’پوسٹ مارٹم صبح نو بجے کے بعد ہوا اور ساری رات کہانی بنائی جاتی رہی، اگر مزید وقت ملتا تو شاید شہادت بھی لے آتے کہ قتل کیسے ہوا۔‘
انہوں نے بتایا ’ایک روز تک بچی گھر نہ آنے کے باوجود پولیس کو اطلاع نہیں دی گئی، غفلت کی شق تو والدین پر لگی چاہیے۔‘
فرانزک ٹیم نے جائے وقوعہ سے سب کچھ حاصل کیا لیکن انہیں ڈی وی آر نہیں ملی، وہ کوئی سوئی تو نہیں تھی جو نہیں ملی۔
نور مقدم قتل کیس میں عدالت میں پیش ہونے والے ملزمان کے وکیل کا کہنا ہے کہ یہ کیس تضاد سے بھرا ہوا ہے۔
قبل ازیں سماعت کا آغاز مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے گھر کام کرنے والے افراد اور ملزمان افتخار، جمیل اور جان محمد کے وکیل کے دلائل کے ساتھ ہوا۔
وکیل کا مزید کہنا تھا کہ افتخار کے خلاف ایک سے 19 تک جتنے گواہان گزرے کسی نے کچھ نہیں بولا۔
’افتخار نے نور مقدم کو نا ہاتھ لگایا اور نا بات کی۔‘
ملزم کے دفاع میں وکیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ سی ڈی آر ڈیٹا کے مطابق جان محمد کی کوئی کال نہیں شاید اس کے پاس کراچی کا نمبر بھی نہ ہو۔
’یہ دور افتادہ علاقے کے رہنے والے ہیں ان کو تو اس وقوعے کا علم بھی نہیں تھا۔ ان کو بے گناہ طور پر ملوث کیا گیا۔‘
ان کا ماننا تھا کہ استغاثہ کا کیس غیر قانونی اور تضاد سے بھرا ہوا ہے۔
’کسی کو چار دن بعد، کسی کو 18 دن بعد اس کیس میں ملوث کیا گیا۔‘
ملزم کے وکیل سکندر ذوالقرنین نے دلائل کے اختتام پر کہا کہ پراسیکوشن کا پورا کیس واقعاتی شہادتوں پر ہے، ظاہر جعفر پر جو گلہ کاٹنے کا الزام ہے اس کے فنگر پرنٹ نہیں ملے، پستول پر سے بھی فنگر پرنٹ نہیں ملے۔
’تفتیشی اور مدعی کے بیانات کی کڑیاں نہیں مل رہیں، ان کے بیانات میں تضاد ہے۔‘
ان کے مطابق ’موقع سے سگریٹ کے چار ٹکڑے بھی ملے جن میں دو نامعلوم افراد تھے، ان افراد کو کبھی پیش نہیں کیا گیا۔‘
بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعات 21 فروری تک ملتوی کر دی، اگلی سماعت پر تھیراپی ورکس کے سی ای او کے وکیل اور ملزم کی والدہ عصمت آدم جی کے وکیل حتمی دلائل دیں گے۔