حجاب مخالف پالیسیاں ’جنسی تعصب‘ کی عکاس:بیلا حدید
بیلا حدید نے متعلقہ ممالک سے گزارش کی ہے کہ حجاب مخالف پالیسیوں پر دوبارہ غور کریں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
امریکی ماڈل بیلا حدید نے انڈیا میں حجاب پر پابندی کی مذمت کا سوشل میڈیا پر اظہار کیا ہے۔
’میں فرانس، انڈیا، کیوبک، بیلجیئم اور دنیا کے دیگر ممالک سے جو خواتین کے خلاف ہیں، ان سے گزارش کرتی ہوں کہ اپنے جسم سے متعلق فیصلے، جو وہ کر چکے ہیں یا مستقبل میں کرنے والے ہیں، ان پر دوبارہ غور کریں۔ یہ آپ کی ذمہ داری نہیں کہ خواتین کو بتائیں وہ کیا پہنیں کیا نہیں، خاص طور پر جب بات ان کے مذہب اور حفاظت کی ہو۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’یہ آپ کا کام نہیں کہ خواتین کو بتائیں وہ تعلیم حاصل کر سکتی ہیں یا نہیں یا کھیلوں میں حصہ لے سکتی ہیں یا نہیں، خاص طور پر جب بات ان کے مذہب اور تحفظ کی ہو۔ فرانس میں حجابی حواتین کو سکول میں سر ڈھکنے کی اجازت نہیں، نہ ہی کھیلوں میں حصہ لینے کی، تیراکی کی یا اپنے شناختی کارڈ کی تصاویر میں حجاب پہننے کی ہے۔‘
بیلا حدید نے بتایا کہ فرانس میں ’آپ حجاب پہن کر سرکاری نوکری نہیں کر سکتے نہ ہی ہسپتالوں میں کام کر سکتے ہیں۔ انٹرن شپ حاصل کرنے کے لیے زیادہ تر یونیورسٹی کہیں گی کہ اس کے لیے ایک ہی طریقہ ہے کہ حجاب اتار لیا جائے۔ یہ بےکار بات ہے اور یہ دکھاتی ہے کہ دنیا میں اسلام سے متعلق کتنا خوف پھیلا ہوا ہے اور اس کو تسلیم بھی نہیں کیا جا رہا۔‘
بیلا حدید کہتی ہیں کہ کسی آدمی کے لیے 2022 یعنی آج کے دور میں یہ سوچنا کہ وہ ایک عورت کے لیے فیصلہ کر سکتا ہے، صرف ہنسنے کی بات نہیں بلکہ ذہنی خرابی بھی ہے۔
اپنی دوست کی بات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسے اقدامات اسلام کا خوف ہی نہیں بلکہ جنسی تعصب کی بھی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ کوئی بھی ملک یا وقت ہو، آدمی ہمیشہ ایک عورت کے کاموں اور لباس سے متعلق فیصلے کا اختیار رکھنا چاہتے ہیں۔
’اسے روکنے کی ضرورت ہے۔‘