Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں ’بچے کو جنم دینے کے لیے 600 کلومیٹر تک کا سفر‘

ڈاکٹر نجمہ غفار کا کہنا ہے کہ ’بولان ہسپتال کے لیبر روم میں صرف چار ڈیلیوری ٹیبل اور صرف ایک آپریشن تھیٹر ہے‘ (فوٹو: اردو نیوز)
پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں بارکھان کے علاقے بغاؤ کی رہائشی 33 سالہ مائی بی بی کی یہ پانچویں زچگی تھی۔ پہلے چاروں بچوں کی پیدائش گھر پر ہی ہوئی مگر اس بار طبیعت خراب ہونے پر شوہر انہیں پنجاب لے جانے پر مجبور ہوا۔
150 کلومیٹر دور ڈیرہ غازی خان کے ہسپتال پہنچتے پہنچتے تین گھنٹے کے اس سفر میں خون اتنا زیادہ بہہ گیا کہ مائی بی بی پیٹ میں موجود بچے سمیت دم توڑ گئی۔
مائی کے شوہر 40 سالہ عبدالوحید اہلیہ کو پہلے گھر کے قریب بنیادی مرکز صحت (بی ایچ یو) اور پھر 30 کلومیٹر کی کچی سڑک پر سفر کر کے شہر میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لے گئے مگر دونوں جگہ کوئی طبی امداد ملی اور نہ ڈاکٹر موجود تھا۔ شہر میں ایسا کوئی نجی کلینک بھی نہیں تھا جہاں کوئی ماہر ڈاکٹر ان کی اہلیہ کی جان بچا سکیں۔
اہلیہ کے انتقال کے بعد عبدالوحید کو اب گذشتہ تین ماہ سے کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ اپنی ڈیڑھ سالہ بیٹی سمیت چار بچوں کی اکیلے دیکھ بھال کرنا پڑ رہی ہے۔
عبدالوحید کا کہنا ہے کہ اگر ان کی بیوی کو اپنے ہی ضلع میں مناسب اور ہنگامی علاج کی سہولت ملتی تو آج وہ زندہ ہوتی اور ان کے بچے ماں سے محروم نہ ہوتے۔
یہ صرف مائی بی بی کی کہانی نہیں، بلوچستان میں غریب اور متوسط طبقے کی ایسی بہت سی خواتین کے لیے بچے کو جنم دینا جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے ) کے مطابق صوبے میں ہر تین گھنٹے میں ایک عورت زچگی کی ایسی پیچیدگیوں کے باعث مر جاتی ہے جن کا علاج کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میٹرنل مورٹیلٹی سروے 2019 کے مطابق پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی شرح سب سے زیادہ بلوچستان میں ہے جہاں ایک لاکھ زچگیوں کے دوران 298 مائیں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
قومی سطح پر یہ تناسب ایک لاکھ پیدائشوں پر 187 اموات کا ہے یعنی بلوچستان میں اموات کی یہ شرح باقی ملک سے تقریباً 40 فیصد زائد ہے۔

بلوچستان میں سکلڈ برتھ اٹینڈ یعنی کسی تربیت یافتہ طبی اہلکار کے ذریعے زچگی کی شرح صرف 38 فیصد ہے۔ (فوٹو: پاکستان ادارہ شماریات)

بلوچستان حکومت نے آئندہ چار سالوں تک صوبے میں زچگی کے دوران اموت کی شرح 200 تک لانے کا ہدف رکھا ہے۔
تاہم ماں اور نوزائیدہ بچے کے صحت کے پروگرام (ایم این سی ایچ) کے صوبائی کوآرڈنیٹر اسماعیل میروانی کے مطابق ’پروگرام کو فنڈز، ماہر امراض نسواں، ماہر امراض اطفال، لیڈی ڈاکٹر سمیت ماہر افرادی قوت کی کمی کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔‘
بلوچستان میں محکمہ صحت کے حکام اور طبی ماہرین حاملہ خواتین کی پیدائش سے پہلے دیکھ بھال نہ ہونے کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ طبی عملے کی شدید کمی، اور مناسب سہولیات سے آراستہ ہسپتالوں اور صحت کے مراکز تک رسائی میں مشکلات کو صوبے میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات کی وجوہات قرار دیتے ہیں۔
بلوچستان میں محکمہ صحت کے پاس اضلاع کی سطح پر زچگی کے دوران ہونے والی اموات کا ڈیٹا نہیں ہے۔
ایم این سی ایچ کے کوآرڈنیٹر ڈاکٹر اسماعیل میروانی کا کہنا ہے کہ ’بارکھان، شیرانی، آواران، ڈیرہ بگٹی، کوہلو، موسیٰ خیل، واشک، خاران سمیت بلوچستان کے ان اضلاع میں زچگی کے دوران ماؤں کی اموات کی شرح زیادہ ہے جہاں زچہ و بچہ کے لیے جامع دیکھ بھال کی سہولیات یعنی ماہر امراض نسواں، ماہر امراض اطفال سمیت تربیت یافتہ طبی عملہ، لیبر روم، آپریشن تھیٹر اور دیگر ضروری سہولیات موجود نہیں۔‘
اردو نیوز نے صوبے کے مختلف اضلاع کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسران، مقامی صحافیوں اور شہریوں سے معلومات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے 33 اضلاع میں سے صرف خضدار، تربت، سبی، جعفرآباد اور حب کے سرکاری ہسپتالوں میں سیزرین سیکشن آپریشن ہو سکتے ہیں۔
یعنی صوبے کے 85 فیصد اضلاع کے سرکاری ہسپتالوں میں گائنا کالوجسٹ یا پھر ایسی سہولیات ہی نہیں جن کی مدد سے زچگی کے دوران پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے نمٹ کر ماؤں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جا سکیں۔
ایسی صورت میں ملک کے تقریباً نصف رقبے پر مشتمل بلوچستان میں حاملہ خواتین کو محفوظ طریقے سے بچے کو جنم دینے کے لیے 600 کلومیٹر تک کا سفر بھی کرنا پڑتا ہے لیکن ان میں سے ایک بڑی تعداد کوئٹہ یا پھر کسی دوسرے بڑے شہر کے ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتی ہے۔

ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر عابد ریکی کے مطابق ضلع میں لیڈی ڈاکٹر کی 10 منظور شدہ آسامیاں ہیں مگر سب خالی ہیں۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

29 ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا بلوچستان کا ضلع واشک پورے خیبر پختونخوا کے تقریباً ایک تہائی رقبے کے برابر ہے مگر پونے دو لاکھ آبادی والے اس ضلع میں ایک لیڈی ڈاکٹر بھی نہیں۔
ڈسٹرکٹ ہیلتھ افسر عابد ریکی کے مطابق ضلع میں لیڈی ڈاکٹر کی 10 منظور شدہ آسامیاں ہیں مگر سب خالی ہیں اور ضلع میں ماں اور بچے کی صحت کی دیکھ بھال کے لیے لیڈی ہیلتھ وزیٹر پر انحصار کیا جاتا ہے۔
اگر کسی حاملہ خاتون کو آپریشن کی ضرورت پڑے تو اسے 500 سے 600 کلومیٹر کا سفر طے کر کے کوئٹہ یا پھر خضدار لے جانا پڑتا ہے۔
 پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2017-18 کے مطابق ’بلوچستان میں تولیدی عمر (15 تا 49 سال ) کی خواتین میں سے 90 فیصد نے بتایا کہ انہیں علاج کرانے کے لیے کسی نہ کسی رکاوٹ یا مشکل کا سامنا رہتا ہے۔‘
74 فیصد نے بتایا کہ ’انہیں کسی صحت مرکز تک رسائی میں طویل فاصلے کی وجہ سے مشکلات پیش آتی ہیں۔‘
اقوام متحدہ کے جنسی و تولیدی صحت کے ادارے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے )کے مطابق تقریباً پانچ میں سے ایک خاتون میں دوران زچگی پیچیدگیاں پیدا ہونے کا امکان ہے جس کے لیے اعلیٰ سطح کی پیشہ ورانہ مہارت کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
تاہم ہر 10 میں سے نو پیدائشیں مناسب طریقے سے تربیت یافتہ دائیوں کے ذریعے محفوظ طریقے سے کی جا سکتی ہیں لیکن بلوچستان میں صرف ماہر ڈاکٹروں کی ہی نہیں بلکہ تربیت یافتہ دائیوں کی بھی کمی ہے۔
وفاقی وزارت صحت کی 2017 کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان ملک کے ان صوبوں میں شامل ہے جہاں افرادی قوت کی کمی سب سے زیادہ ہے۔
بلوچستان میں 10 ہزار کی آبادی کے لیے صرف پانچ ڈاکٹر جبکہ صرف دو  نرس یا مڈ وائف ہیں۔ یہ شرح باقی ملک کے مقابلے میں تقریباً نصف ہے۔
وزارت صحت کے اندازے کے مطابق بلوچستان کو 2030 تک 14 ہزار ڈاکٹروں اور 47 ہزار ہیلتھ ورکرز کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز بلوچستان ڈاکٹر نور قاضی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بلوچستان میں طبی عملے بالخصوص گائنا کولوجسٹ، خواتین ڈاکٹر، اینستھیزسٹ اور تربیت یافتہ دائیوں کی شدید کمی ہے۔ اینستھیزسٹ تو کوئٹہ کے بڑے ہسپتالوں میں بھی پورے نہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’صوبے میں صرف 1700 کمیونٹی مڈ وائف (تربیت یافتہ دائیاں) اور 1500 لیڈی ہیلتھ وزیٹرز ہیں۔‘

اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے ) کے مطابق صوبے میں ہر تین گھنٹے میں ایک عورت زچگی کی ایسی پیچیدگیوں کے باعث مر جاتی ہے۔ (فوٹو: یو این ایف پی اے)

بجٹ دستاویزات کے مطابق بلوچستان میں محکمہ صحت کے ملازمین کی تعداد 29 ہزار سے زائد ہیں تاہم ان میں گائنا کولوجسٹ کی تعداد تقریباً 50 اور فی میل میڈیکل آفیسرز (لیڈی ڈاکٹر) 700 کے لگ بھگ ہیں۔
ان میں سے بھی نصف سے زائد لیڈی ڈاکٹرز کوئٹہ میں تعینات ہیں جبکہ باقی اضلاع میں بڑی تعداد میں یہ آسامیاں خالی بھی ہیں۔
ڈاکٹر قاضی کے مطابق صوبے کے دیہی علاقوں میں ڈاکٹروں کی کمی پورا کرنے کے لیے کنٹریکٹ کی بنیاد پر بھرتیاں کی جا رہی ہیں۔ دور دراز کے علاقوں میں ڈاکٹروں کو تنخواہوں کے علاوہ 90 ہزار روپے تک کے اضافی الاؤنس دیے جاتے ہیں۔
اس کے باوجود ڈاکٹر خاص کر خواتین ماہرین دور دراز علاقوں میں کام کرنے کو کیوں تیار نہیں؟ اس سوال کے جواب میں سینئیر گائنا کالوجسٹ اور سول ہسپتال کوئٹہ کے شعبہ گائنی کالوجی کی سربراہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے بتایا کہ ’رہائش، سکیورٹی اور بچوں کے لیے اچھے سکول سمیت دوسری بنیادی سہولیات کی عدم موجودگی اس کی وجوہات ہیں۔‘
ڈی جی ہیلتھ کے مطابق بلوچستان کے 34 اضلاع میں مجموعی طور پر 1600 سے زائد ہسپتال اور صحت کے مراکز ہیں جن میں نو ٹیچنگ ہسپتال، دو ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال، 28 ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال، پانچ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال ،108 رورل ہیلتھ سینٹرز، 784 بنیادی مراکز صحت جبکہ 91 زچہ و بچہ مراکز شامل ہیں۔
بلوچستان میں صحت کے شعبے پر سالانہ تقریباً 50 ارب روپے سے زائد خرچ ہونے کے باجود پاکستان سوشل اینڈ لیونگ سٹینڈرنگ میئرمنٹ سروے 2019-20 میں صوبے کے 28 میں 17 اضلاع میں صحت کے اشاریوں کو بد ترین قرار دیا گیا ہے۔
پیپلز پرائمری ہیلتھ کیئر انیشیٹو (پی پی ایچ آئی ) کوئٹہ میں پبلک ہیلتھ سپیشلسٹ اور محکمہ صحت کے سابق افسر ڈاکٹر مختار زہری کا کہنا ہے کہ ’صوبے کے 90 فیصد بیسک ہیلتھ یونٹس لیڈی ڈاکٹرز اور نصف لیڈی میڈیکل ٹیکنیشن یا لیڈی ہیلتھ وزیٹر سے محروم ہیں۔‘
’جہاں لیڈی ڈاکٹرز موجود نہیں وہاں لیڈی ہیلتھ وزیٹر اور فی میل میڈیکل ٹیکنشینز کے ذریعے خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔‘
ڈاکٹر مختار زہری کا کہنا تھا کہ ’دیہی اور دور دراز علاقوں میں طبی ماہرین کی کمی اور صحت کے مراکز تک رسائی میں مشکلات کی وجہ کے ساتھ ساتھ معاشرتی رکاوٹوں کی وجہ سے بھی بہت کم حاملہ خواتین حمل کے دوران اپنا طبی معائنہ کراتی ہیں اور ایک بڑی تعداد گھروں میں ہی روایتی طریقوں سے زچگی کو ترجیح دیتی ہیں۔ جب پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں تو انہیں ہسپتال پہنچاتے پہنچاتے ہی بہت وقت ضائع ہو جاتا ہے۔‘

پاکستان ہیلتھ اینڈ ڈیموگرافک سروے میں 74 فیصد خواتین نے بتایا کہ ’انہیں کسی صحت مرکز تک رسائی میں طویل فاصلے کی وجہ سے مشکلات پیش آتی ہیں۔‘ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ ہم لیڈی ہیلتھ وزیٹر اور فی میل میڈیکل ٹیکنشینز کے ذریعے گھروں میں ہی خواتین کی محفوظ ڈیلیوریاں کروائیں۔
’ہم نے سال 2020 میں 13 ہزار سے زائد ایسی ڈیلیوریاں گھروں جبکہ 16 ہزار 720 بیسک ہیلتھ یونٹس میں کروائیں۔ زچگیوں کے 8 ہزار 371 پیچیدہ کیسز بڑے ہسپتالوں کو ریفر کیے گئے۔‘
 پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2017-18 کے مطابق بلوچستان میں 65 فیصد زچگیاں گھروں میں اور صرف 35 فیصد صحت مراکز میں ہوتی ہیں۔
صوبے میں سکلڈ برتھ اٹینڈ یعنی کسی تربیت یافتہ طبی اہلکار کے ذریعے زچگی کی شرح صرف 38 فیصد ہے۔ جبکہ 52 فیصد ڈیلیوریز روایتی دائیوں کے ذریعے ہوتی ہیں۔
سینیئر گائنا کالوجسٹ اور سول ہسپتال کوئٹہ کے شعبہ گائنا کالوجی کی سربراہ ڈاکٹرعائشہ صدیقہ کا کہنا ہے زچگی کے دوران بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں، جس سے پیشہ ورانہ مہارت سے نہ نمٹا جائے تو ماں کی موت ہو جاتی ہے۔
ان کے مطابق ’گھر والوں کی طرف سے بروقت فیصلہ نہ کرنا کہ ڈیلیوری کہاں اور کس سے کروانی ہے اور کسی پیچیدگی یا ایمرجنسی کی صورت میں حاملہ خاتون کو کہاں لے کر جانا ہے، پیشگی طور پر ایمبولنس یا کسی گاڑی اور روپے کا بندوبست نہ ہونا اور کسی اچھے ہسپتال تک پہنچنے کے لیے طویل فاصلے، صوبے کے پسماندہ اور دیہی علاقوں میں محفوظ زچگی کی راہ میں رکاوٹیں ہیں۔‘
زچہ و بچہ کے صحت کے پروگرام کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر اسماعیل میروانی کہتے ہیں کہ ’حاملہ خواتین کو ہنگامی صورتحال میں ہسپتالوں تک پہنچانے کے لیے 96 ایمبولینس دی گئی ہیں مگر انہیں بعض اوقات ایسے مریض بھی استعمال کرتے ہیں جنہیں پیٹ درد جیسی معمولی بیماری ہوتی ہے۔‘
ڈاکٹر عائشہ کے مطابق بیشتر اوقات حاملہ خواتین کو ایسی حالت میں ہسپتال پہنچایا جاتا ہے جب وہ موت کی دہلیز پر ہوتی ہیں اور انہیں بچانے کی کوششیں بھی کامیاب نہیں ہو پاتیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’سول ہسپتال کوئٹہ میں ہر ہفتے چار سے پانچ یعنی ماہانہ اوسطاً 16 سے 20 حاملہ خواتین زچگی کے دوران اموات کا شکار ہوتی ہیں۔ زیادہ تر اموات خون زیادہ بہنے، ہائی بلڈ پریشر اور انفیکشن کی وجہ سے ہوتی ہیں۔‘
اندرون بلوچستان سہولیات اور طبی عملے کی کمی کی وجہ سے سارا بوجھ یہاں کے دو بڑے ہسپتالوں سول ہسپتال اور بولان میڈیکل کمپلیکس پر پڑتا ہے۔ لیکن سالانہ بجٹ دو دو ارب روپے سے زائد ہونے کے وجہ سے دونوں ہسپتالوں کی شعبہ امراض نسواں کی سربراہان اپنے شعبوں میں دستیاب سہولیات سے مطمئن نہیں۔

ڈاکٹر عائشہ کے مطابق بیشتر اوقات حاملہ خواتین کو ایسی حالت میں ہسپتال پہنچایا جاتا ہے جب وہ موت کی دہلیز پر ہوتی ہیں۔ (فائل فوٹو: ایم ایس ایف)

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے مطابق ’ہمارے پاس صوبے کے ہر کونے بلکہ افغانستان کے سرحدی علاقوں سے بھی خواتین زچگی کے لیے لائی جاتی ہیں۔ سول ہسپتال میں سالانہ 16 ہزار سے زائد ڈیلیوریز ہوتی ہیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد پیچیدہ کیسز کی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہمیں ماں اور بچے یا ان میں سے کسی ایک کو بچانے کے لیے روزانہ 16 سے 20 آپریشنز کے ذریعے کرنے پڑتے ہیں، لیکن چار میں سے وارڈ کا صرف ایک ہی آپریشن تھیٹر فعال ہے۔‘
’ایک آپریشن میں کم از کم ایک سے دو گھنٹے وقت لگتا ہے اس دوران دوسری خاتون مر رہی ہوتی ہے مگر ہمارے پاس اسے بچانے کے لیے کوئی راستہ نہیں ہوتا۔‘
بولان میڈیکل کمپلیکس (بی ایم سی) کوئٹہ میں شعبہ گائنہ کالوجی کی سربراہ ڈاکٹر نجمہ غفار نے بھی ہسپتال میں سہولیات کی کمی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’لیبر روم میں صرف چار ڈیلیوری ٹیبل اور صرف ایک آپریشن تھیٹر ہے، جس کی وجہ سے ہمیں مریضوں کے بروقت علاج میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
گذشتہ چار ماہ کے اعداد و شمار بتاتے ہوئے ڈاکٹر نجمہ غفار نے کہا کہ ’ہسپتال میں آنے والی تقریباً ہر چوتھی زچہ کسی نہ کسی پچیدگی میں مبتلا تھی۔ اس دوران کوئٹہ اور صوبے بھر سے 5658 حاملہ خواتین کو بی ایم سی کے دو گائنی وارڈز میں داخل کیا گیا جن میں سے 4809 کی ڈیلیوریز ہوئیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ 1022 خواتین کے سیزرین سیکشن کے ذریعے بچے پیدا کیے گئے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’گذشتہ چھ ماہ کے دوران ہسپتال میں 122 (ماہانہ اوسطاً 20) خواتین کی زچگی کے دوران مختلف پیچیدگیوں کے باعث اموات ہوئیں۔ ان میں سے 60 (49 فیصد ) اموات بچے کی پیدائش سے پہلے یا بعد میں زیادہ خون بہنے کی وجہ سے ہوئیں۔‘
’15 اموات (تقریباً 13 فیصد) ہائی بلڈ پریشر اور دماغی دورے پڑنے، آٹھ فیصد اموات انیستھیزیا دیے جانے کے بعد پیدا ہونے والی پیچیدگیوں جبکہ سات فیصد اموات انفیکشن کی وجہ سے ہوئیں۔‘
نیشنل نیوٹریشن سروے کے مطابق بلوچستان میں تولیدی عمر کی 54 فیصد یعنی ہر دوسری خاتون خون کی کمی کا شکار ہے۔ 76 فیصد حاملہ خواتین وٹامن ڈی، 36 فیصد کیلشیم اور وٹامن اے اور 30 فیصد حاملہ خواتین میں زنک کی کمی پائی گئی۔

حکام کے مطابق صحت کے مراکز تک رسائی میں مشکلات صوبے میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات کی وجوہات میں سے ایک ہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

اس حوالے سے ڈاکٹر عائشہ نے بتایا کہ غذائیت، خون اور وٹامنز کی کمی کا شکار خواتین کے لیے بچے کی پیدائش کے دوران پیچیدگی کے امکانات اور ان کے نتیجے میں مرنے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسی ماؤں کے بچے بھی غیر صحتمند ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’غربت، پسماندگی اور ناخواندگی ماں کی صحت اور زندگی کو متاثر کر رہی ہے۔ خواتین کو حمل کی پیچیدگیوں اور خطرات سے متعلق آگاہی نہیں ہوتی اور وہ اپنی صحت سے متعلق فیصلے بھی خود نہیں لیتیں۔ ان پر شوہر، سسر یا ساس کا زیادہ بچے پیدا کرنے کا دباؤ ہوتا ہے اور خاندانی منصوبہ بندی بہت کم ہوتی ہے۔ ہر سال بچہ پیدا کرنے کی وجہ سے خواتین کی جسمانی اور ذہنی صحت بہت خراب ہوتی ہے اور وہ ذہنی مسائل کا بھی شکار ہو جاتی ہیں۔‘
ڈاکٹر مختار زہری کے مطابق صوبے میں صحت کے لیے مزید وسائل مختص کرنے اور پہلے سے دستیاب وسائل کا شفاف طریقے سے استعمال اور نگرانی کا نظام مؤثر بنا کر بھی ماں اور بچے کی صحت کے اشاریے بہتر بنائے جا سکتے ہیں۔

شیئر: