Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیندک معاہدے میں 15 سال کی توسیع، بلوچستان کو کیا ملے گا؟

پاکستان کی وفاقی حکومت نے بلوچستان میں سیندک سے سونے اور تانبے کے ذخائر نکالنے کے لیے چینی کمپنی ’ایم سی سی‘ کے ساتھ چوتھی مدت کے لیے مزید 15 سال لیز معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔ چینی کمپنی اب 2037 تک اس منصوبے پر کام جاری رکھ سکے گی۔
وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر کا کہنا ہے کہ ’نئے معاہدے میں حکومت پاکستان کے منافعے میں حصہ بڑھادیا گیاہے۔ بلوچستان حکومت کی رائلٹی اور کرایہ بڑھانے کے ساتھ ساتھ مزید سرمایہ کاری کو بھی یقینی بنایا گیا ہے۔‘
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ  معاہدہ بلوچستان حکومت کی مشاورت اور رضامندی سے ہوا ہے۔‘
تاہم بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں نے وفاقی حکومت کے فیصلے کو آئین اور قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اٹھارہویں ترمیم کے بعد معدنیات پر حق و اختیار صوبوں کا ہے اس لیے وفاق خود فیصلے کرنے کے بجائے سیندک منصوبہ بلوچستان کو منتقل کرے۔‘
چینی کمپنی کے ساتھ نیا معاہدہ کن شرائط پر ہوا ہے؟
وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ نے منگل کو اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کی سفارش پر سیندک منصوبے پر پہلے سے کام کرنے والی چینی کمپنی میٹالرجیکل کارپوریشن آف چائنا (ایم سی سی)کے ساتھ چوتھی مدت کے لیے معاہدہ کی منظوری دی۔
اس سے پہلے ای سی سی نے 9 فروری کو معاہدے کی منظوری دی تھی۔ 2017 میں کیے گئے پانچ سالہ معاہدے کی مدت 31 اکتوبر 2022 کو ختم ہورہی تھی۔ نئے معاہدے کے تحت چینی کمپنی اب سیندک میں مزید 15 سال یعنی 2037 تک تین کانوں سے سونے اور تانبے کے ذخائر نکال سکے گی۔
وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر کے مطابق ’نئے معاہدے میں حکومت پاکستان کا منافع میں حصہ 50 فیصد سے بڑھا کر 53 فیصد کردیا گیا ہے جبکہ بلوچستان حکومت کی رائلٹی اور سماجی ترقی (کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی) کی مد میں حصہ 5 فیصد سے بڑھا کر 6.5 فیصد کردیا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’نئے معاہدے میں مزید سرمایہ کاری کو بھی یقینی بنایا گیا ہے جبکہ حکومت پاکستان کی مینجمنٹ اور نگرانی میں سکوپ کو بھی بڑھا دیا گیا ہے۔‘
سیندک پراجیکٹ وفاقی حکومت کی کمپنی سیندک میٹلز لمیٹڈ (ایس ایم ایل) کی ملکیت ہے جس پر چین کی ایم سی سی  کمپنی لیز معاہدے کے تحت کام کرتی ہے۔ انٹرنیشنل فنانشل لا، تیل، گیس اور کان کنی کے بین الاقوامی قوانین میں ماہر کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے جہانزیب درانی ایڈووکیٹ سیندک میٹل لمیٹڈ میں انڈیپینڈنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے معاہدے کے لیے مشاورت میں شریک رہے
۔وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ معروضی حالات میں نظر ثانی شدہ معاہدہ پہلے سے بہتر شرائط کے ساتھ کیا گیاہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے جہانزیب درانی نے بتایا کہ ’وفاقی حکومت کا شیئر جبکہ رائلٹی اور سماجی ترقی کی مد میں بلوچستان کا حصہ بڑھایا گیاہے۔بلوچستان کو سیلز ریونیو پر اب 5 فیصد کے بجائے6.5  فیصد رائلٹی ملے گی جبکہ کارپوریٹ سوشل رسپانسیلبٹی (سی ایس آر) کی مد میں بھی 1.5 فیصد اضافے کے ساتھ منصوبے کے منافع کا 6.5 فیصد حصہ مختص کیا جائےگا۔‘
’اس کے علاوہ چاغی کے طلبہ و طالبات کے تعلیمی وظائف کے لیے ایک کروڑ روپے سالانہ دیے جائیں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ترمیم شدہ شرائط کے مطابق چینی کمپنی ضرورت کی بنیاد پر 45.5 ملین ڈالر (تقریباً آٹھ ارب روپے) کی اضافی سرمایہ کاری بھی کرے گی۔
جہانزیب درانی کے مطابق نئے معاہدے میں انٹرنیشنل پریکٹسز کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے اور چینی کمپنی کام ختم ہونے کے بعد سینکڑوں میٹر گہری کان کو بند کرنے سمیت دیگر ماحولیاتی امور کا بھی خیال رکھے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کے تحت ایک ذیلی کمیٹی بنا کر چینی کمپنی کو پابند کیا جائے گا کہ وہ ٹیکنیکل سکول کو فعال بنائیں اور چینی اہلکاروں کی تعداد کو کم سے کم رکھ کر زیادہ سے زیادہ مقامی افراد کو ملازمتیں فراہم کرے۔
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ معاہدہ 15 سال کی مدت کے لیے ہوا ہے مگر اس میں ہر تین سے پانچ سال بعد نظر ثانی کی شرط بھی رکھی گئی ہے، اس لیے حکومت شرائط کو بہتر بنانے کے لیے مستقبل میں چینی کمپنی کے ساتھ بارگین کرسکے گی۔
سیندک میں مجموعی طور پر تین کانیں ہیں جنہیں جنوبی ، شمالی اور مشرقی مائن اور باڈیزکے نام سے جانا جاتا ہے۔گذشتہ 20 برسوں سے شمالی اور جنوبی کانوں سے ذخائر نکالے جارہے تھے اور دونوں کانوں میں اب ذخائر بہت کم رہ گئے ہیں۔
چینی کمپنی ایم سی سی کے ایک عہدے دار کے مطابق ’معاہدے میں توسیع کے بعد کمپنی اب سیندک میں تیسری کان کی کان کنی شروع کرے گی جسے ایسٹ اور باڈی یا مشرقی کان کہتے ہیں۔اس حصے میں 273 ملین ٹن سونے کے ذخائر ہیں جنہیں مزید 19 برسوں تک نکالا جاسکتا ہے۔

ترمیم شدہ شرائط کے مطابق چینی کمپنی تقریباً آٹھ ارب روپے کی اضافی سرمایہ کاری بھی کرے گی (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)

چینی کمپنی نے جنوری 2022 میں بتایا تھا کہ مشرقی کان میں پچھلی دونوں کانوں کے مقابلے میں سونے اور تانبے کا تناسب کم ہے۔ کمپنی کے مطابق یہاں 328 ٹن خام مال سے ایک ٹن خالص تانبا حاصل کیا جاسکتا ہے جبکہ پچھلی کان میں یہ تناسب 283 ٹن تھا۔
اس طرح فی ٹن خام تانبے کی پیداواری لاگت میں 340 ڈالر کا اضافہ ہوتا ہے اور اس کی مجموعی قیمت بھی جنوبی کان کے مقابلے میں 30 فیصد کم ہے۔
نئے معاہدے پر اعتراضات
سیندک سے متعلق بلوچستان اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے چیئرمین بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما ثناء اللہ بلوچ نے معاہدے میں مزید 15 سال کی توسیع کو آئین، قانون اور بلوچستان ہائی کورٹ کی ہدایات کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ 2010 میں آئین میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے معدنیات کو صوبوں کی ملکیت قرار دیاگیا مگر اس کے باوجود بلوچستان میں معدنی وسائل پر صوبے کا اختیار برائے نام ہے اور فیصلے وفاق کررہا ہے۔‘
’اس ترمیم کے بعد بھی 2012 اور 2017 میں دو مرتبہ سیندک معاہدے میں وفاقی حکومت نے توسیع کی۔ ایک طرف یہ آئین کی خلاف ورزی ہے دوسری طرف صوبائی حکومتوں اور بیوروکریسی کی غیر سنجیدگی کو بھی دکھاتا ہے۔‘
سنہ 2018 میں بلوچستان اسمبلی نے سیندک منصوبے کو صوبے کے مکمل اختیار میں دینے سے متعلق ثنا بلوچ کی تجویز پر خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ ثنا بلوچ کا کہنا ہے کہ معاہدے میں توسیع سے متعلق بلوچستان اسمبلی کی اس خصوصی کمیٹی کو بھی مکمل نظر انداز کیا گیا۔

بی این پی کے رہنما ثناء اللہ بلوچ نے معاہدے میں توسیع کو آئین، قانون اور بلوچستان ہائی کورٹ کی ہدایات کی خلاف ورزی قرار دیا ہے (فائل فوٹو: اے پی پی)

نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا ہے کہ معدنیات صوبائی معاملہ ہے اس پر اختیار صرف صوبے کا ہے۔
’وفاق معاہدے کی توسیع کرکے ماورائے آئین اقدامات کا مرتکب ہوا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ سیندک معاہدے کو کن شرائط پر توسیع دی گئی عوام کے سامنے لایا جائے۔‘
18 ویں ترمیم کے بعد سیندک منصوبہ بلوچستان کو کیوں منتقل نہیں ہوا؟
سنہ 2010  میں 18 ویں ترمیم میں معدنیات کو صوبوں کی ملکیت قرار دیا گیا۔ اس سے پہلے 2009 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے ’آغاز حقوق بلوچستان پیکج‘ میں سیندک منصوبہ بلوچستان کے کنٹرول میں دینے اور منافع میں 35 فیصد حصہ دینے کا نکتہ شامل تھا۔
بلوچستان حکومت کے سابق عہدے دار وں کے مطابق وفاقی حکومت نے اس وقت منصوبے کا کنٹرول دینے کے لیے بلوچستان سے سیندک پر ہونے والی تقریباً 30 ارب روپےکی سرمایہ کاری واپس کرنے کی شرط رکھی۔
سابق وزیراعلیٰ  ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا ہے کہ انہوں نے مرکزی حکومت کو یہ وعد ہ یاد دلایا مگر اس کے باوجود منصوبہ بلوچستان کو منتقل کرنے کی بجائے معاہدے کی مدت پوری ہونے پر وفاق نے توسیع کردی۔
سابق سیکریٹری خزانہ بلوچستان اور معاشی امور کے ماہر محفوظ علی خان کے مطابق ہم نے اس وقت وفاقی حکومت کو کہا تھا کہ اول تو وفاق اب تک اپنی سرمایہ کاری کی تقریباً پوری رقم منصوبے سے ہونے والے منافع سے واپس حاصل کرچکا ہے لیکن اگر وفاق پھر بھی اپنی سرمایہ کاری کی رقم واپس چاہتا ہے تو صوبہ وہ بھی مرحلہ وار دینے کے لیے تیار ہے  مگر وفاقی حکومت رضامند نہ ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب وہ سیکریٹری خزانہ بلوچستان تھے تو آغاز حقوق بلوچستان پیکج اور اٹھارہویں ترمیم کے تحت وفاقی حکومت سے سیندک کے منافع میں سے ایک دو قسطیں لینے میں کامیاب بھی ہوئے مگر بعد کی صوبائی حکومتوں نے منصوبہ اپنے اختیار میں لینے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور 2012، پھر 2017 اور اب تیسری بار اس معاہدے میں وفاق نے توسیع کردی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاق کا منصوبہ اپنے اختیار میں رکھنا آئین کی صریح خلاف ورزی ہے۔

چینی کمپنی کے ایک عہدے دار کے مطابق ’معاہدے میں توسیع کے بعد کمپنی اب سیندک میں تیسری کان کی کان کنی شروع کرے گی‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

بلوچستان حکومت کے ایک سابق سیکریٹری معدنیات نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ا’ٹھارہویں ترمیم کے بعد رائلٹی اور سی ایس آر کے علاوہ منصوبے کے منافع سے وفاقی حکومت کو ملنے والے حصے سے 30 فیصد واپس بلوچستان کو دینا طے پایاتھا۔‘
’شروع میں ایک دو قسطیں بھی ملیں مگر اس کے بعد وفاقی حکومت کی کمپنی سیندک میٹل لمیٹڈ نے یہ منافع دینا بند کردیا اور جواز یہ پیش کیا کہ ایک بڑی رقم ایف بی آر ٹیکسز کی مد میں لے جاتا ہے جس کے خلاف انہوں نے عدالت میں کیس کر رکھا ہے جب تک اس کیس کا فیصلہ نہیں آتا صوبے کو منافع میں سے 30 فیصد رقم نہیں دے جاسکتی۔انہوں نے اسے صوبے کے ساتھ زیادتی سے تعبیر کیا۔‘
ایس ایم ایل کے انڈی پینڈنٹ ڈائریکٹر اور کانکنی کے بین الاقوامی قوانین کے ماہر جہانزیب درانی سمجھتے ہیں کہ منصوبے میں نفع و نقصان دونوں کا خدشہ رہتا ہے اور بلوچستان حکومت کے لئے سالانہ ترقیاتی  پروگرام سے اربوں روپے کی رقم نکال کر سیندک منصوبے پر خرچ کرنا مشکل ہے اس لئے وہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتی۔ان کا کہنا تھا کہ شاید یہی وجہ تھی کہ معاہدے میں  حالیہ توسیع کے لئے مذاکرات اور مشاورتی عمل میں  بلوچستان حکومت کی طرف سے منصوبے کا کنٹرول حاصل کرنے کا مطالبہ سامنے نہیں آیا۔
سیندک سے بلوچستان کو کتنی آمدن ہورہی ہے؟
سیندک پر کام کرنے والی چینی کمپنی ایم سی سی کی ذیلی کمپنی ایم آر ڈی ایل نے جنوری 2022 میں ایک بیان میں بتایا تھاکہ سیندک پراجیکٹ نے 2021 میں 74 ملین ڈالر یعنی تقریباً 13 ارب روپے منافع کمایا ۔منافع میں اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں ساڑھے نو کروڑ روپے کا اضافہ دیکھا گیا۔ یعنی 2020 میں بھی منافع 12 ارب روپے سے زائد رہا۔ 2017 کے معاہدے کے تحت 50 فیصد کے حساب سے وفاق کا حصہ تقریباً 6 ارب روپے بنتا ہے۔

وفاقی حکومت نے سیندک سے ذخائر نکالنے کے لیے چینی کمپنی کے ساتھ مزید 15 سال لیز معاہدے کی منظوری دے دی (فائل فوٹو: پی ایم آفس)

اس کے مقابلے میں مئی 2021 کی ریڈیو پاکستان کی ایک خبر کے مطابق وفاقی حکومت نے سیندک پراجیکٹ سے بلوچستان حکومت کو صرف 30 کروڑ روپے کی رقم دی۔
چینی کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے گذشتہ 19 برسوں میں پاکستان اور بلوچستان کی حکومتوں اور مالکان کو 468 ملین ڈالر (آج کے 82 ارب روپے) سے زیادہ ٹیکس، فیس اور منافع ادا کیاہے۔ڈان کی 2018 کی رپورٹ کے مطابق 2003ء سے 2017ء تک بلوچستان حکومت کو صرف 7 ارب 14 کروڑ روپے ملے۔کمپنی کا کہنا ہے کہ 2018 تک اس نے بلوچستان کو سی ایس آر کی مد میں 55 لاکھ ڈالر کی رقم ادا کی ہے۔
سابق سیکریٹری خزانہ محفوظ علی خان کے مطابق نئے معاہدے میں رائلٹی اور سی ایس آر میں اضافہ اچھی بات ہے مگر صوبے کومنصوبے کی ملکیت مل جائے تو اس کی آمدن میں خطیر اضافہ ہوسکتا ہے ۔اب منافع اور ادائیگیوں کے حسابات کے لئے مکمل طور پر چینی کمپنی پر انحصار کیا جاتا ہے۔ یہ واضح طور پر نہیں بتایا جاتا کہ سیندک سے نکالی جانے اور بیرون ملک منتقل کی جانے والی دھاتوں میں سونے اور دیگر قیمتی دھاتوں کی مقدار کتنی ہے ۔ اگر ایسا نظام بنایا جائے تو اصل منافع کا درست اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
خیال رہے کہ جام کمال کی بلوچستان حکومت نے پہلے ہی جون 2020 میں چینی کمپنی ایم ایم سی کو مزید 15 برسوں کے لیے کان کنی کی اجازت دی تھی۔
اردو نیو ز کی کوششوں اور رابطے کے باوجود سیندک منصوبے میں توسیع پر صوبائی حکومت کا مؤقف حاصل نہیں کیا جاسکا۔ بلوچستان میں حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان اور صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران نے تین مرتبہ رابطے کے بعد خود معلومات لے کر مؤقف دینے کا کہا مگر اس کے بعد انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

جام کمال کی حکومت نے جون 2020 میں چینی کمپنی کو مزید پندرہ برسوں کے لیے کان کنی کی اجازت دی تھی (فائل فوٹو: جام کمال ٹوئٹر)

جہانزیب درانی کا کہنا ہے کہ چینی کمپنی کے ساتھ معاہدے کی توسیع کے لئے مذاکرات گزشتہ سات آٹھ ماہ سے چل رہے تھے ، بلوچستان حکومت اس پورے عمل میں شریک رہی ہے ۔ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد بھی صوبائی حکومت کے پاس موقع ہوگا کہ وہ معاہدے پر نظر ثانی کرسکیں۔
سیندک منصوبہ
سیندک کوئٹہ تقریباً 700 کلومیٹر دور بلوچستان کے ضلع چاغی کے ایک قصبے کا نام ہے۔ ایرانی سرحد سے ملحقہ یہ علاقہ ٹیتھیان کی اس ارضیاتی پٹی میں شامل ہے جو دنیا میں سونے، چاندی اور تانبے جیسی قیمتی معدنیات کے بیش بہا ذخائر کے حوالے سے جانا جاتا ہے ۔
سیندک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کی دریافت 60 ء اور 70 کی دہائی میں ہوئے تھے ۔پاکستان کی وفاقی حکومت نے 1995ء میں سیندک میٹلز لمیٹڈ (ایس ایم ایل ) نام کی کمپنی بناکر چینی کمپنی ایم سی سی کے ساتھ ملکر آزمائشی بنیادوں پر پیداوار کا آغاز کیا تاہم تانبے کی کم  قیمتوں ،تکنیکی مسائل اور مالی خسارے کی وجہ سے یہ منصوبہ 1996 سے 2001 تک تعطل کا شکار رہا۔
2002 میں وفاقی حکومت نے 350 ملین ڈالر کے معاہدے کے تحت سیندک میں سونے اور تانبے کی یہ کان چین کی میٹالرجیکل کارپوریشن آف چائنا لمیٹڈ  (MCC)کو 10 سالہ لیز پر دی۔ اس معاہدے کے تحت منافع وفاقی حکومت اور چینی کمپنی میں برابر برابر تقسیم جبکہ بلوچستان حکومت کا حصہ صرف 2 فیصد رائلٹی طے پایا۔ 2009 میں بلوچستان کا رائلٹی کی مد میں حصہ 5 فیصد تک بڑھایا گیا۔ 2012 میں 5 سال اور 2017 میں دوسری بار 5 سال کے لئے چینی کمپنی کے ساتھ معاہدے کی تجدید کی گئی۔

شیئر: