Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ میں میڈیکل کالجز کے طلبہ کا احتجاج، ’حکومتی کمزوریوں کی سزا نہ دی جائے‘

کوئٹہ میں چار سالوں سے زیر تعلیم میڈیکل کالجز کے 600 طلبہ کی پاکستان میڈیکل کمیشن کی جانب سے رجسٹریشن نہ ہونے کے خلاف احتجاج میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان دھکم پیل سے ایک طالبہ زخمی ہوگئی ہے۔
جمعرات کو تا دم مرگ بھوک ہڑتال پر موجود پانچ طلبہ بھی ویل چیئرز اور سٹریچر پر احتجاج میں شریک ہوئے۔
پانچوں طلبہ نے گذشتہ سات دنوں سے کچھ کھایا پیا نہیں جس کی وجہ سے ان کی حالت خراب ہے اور وہ کئی دنوں سے ہسپتال میں داخل تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ’احتجاجی طلبہ و طالبات ریڈ زون کی طرف جانا چاہتے تھے جہاں گورنر اور وزیراعلیٰ ہاؤس واقع ہے۔‘
’پولیس نے انہیں روکا تو دھکم پیل شروع ہوگئی۔ پولیس کے اینٹی رائٹ فورس کے سینکڑوں اہلکاروں نے مظاہرین کی ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش ناکام بنا دی جس کے بعد طلبہ نے کمشنر آفس کے قریب دھرنا دے دیا۔‘
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر صارفین نے مستقبل کے ڈاکٹروں پر احتجاج کے دوران پولیس کے تشدد کی مذمت کی۔
خیال رہے کہ بلوچستان کے تین اضلاع خضدار، تربت اور لورالائی میں قائم ہونے والے تین نئے میڈیکل کالجز کے طلبہ و طالبات گذشتہ تین ماہ سے پاکستان میڈیکل کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، جس میں کالج میں گذشتہ چار برسوں کے دوران داخلہ لینے والے تمام طلبہ کو نئے سرے سے ٹیسٹ دینے کا کہا گیا ہے۔
مطالبات تسلیم نہ ہونے پر پانچ طالب علموں نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ میں 11 فروری سے تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کی اس دوران پانچوں طلبہ کی حالت خراب ہوگئی جس پر انہیں ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔
طبیعت خراب ہونے کے باوجود بھوک ہڑتال پر موجود طلبہ کچھ کھانے پینے پر تیار نہیں اس لیے ڈرپ کی مدد سے ان کی پانی اور خوراک کی ضروریات کو پورا کیا جا رہا ہے۔

مطالبات تسلیم نہ ہونے پر پانچ طالب علموں نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ میں 11 فروری سے تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

میڈیکل الائنس کمیٹی کے انچارج مصدق بلوچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بھوک ہڑتال پر موجود طلبہ کی زندگی کو خطرات لاحق ہے مگر پاکستان میڈیکل کمیشن کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔‘
صوبائی وزیر خزانہ نور محمد دمڑ نے مظاہرین سے مذاکرات کیے اور انہیں یقین دہانی کرائی کہ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو طلبہ کا مسئلہ حل کرانے کے لئے اسلام آباد میں موجود ہیں اور وہ وفاقی حکومت اور پاکستان میڈیکل کمیشن کے حکام کے ساتھ معاملہ اٹھا رہے ہیں۔
گذشتہ روز چیف سیکریٹری بلوچستان اور صوبائی سیکریٹری صحت نے پاکستان میڈیکل کمیشن کے حکام کے ساتھ اس مسئلے پر اجلاس بھی کیا اور دوسرا اجلاس 15 دنوں بعد طلب کیا گیا ہے۔
تاہم احتجاجی طلبہ کا کہنا ہے کہ طلبہ گذشتہ تین ماہ سے احتجاج پر ہیں مگر معاملے کو حل کرنے کی بجائے طول دیا جا رہا ہے۔ مزید تاخیر کی گئی تو بھوک ہڑتال پر موجود طلبہ کی جان کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
مصدق بلوچ نے بتایا کہ ’خضدار، تربت اور لورالائی میں قائم ہونے والے تین نئے میڈیکل کالجز میں 2018 میں پہلی مرتبہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعے انٹری ٹیسٹ لیے گئے اور سالانہ 150 طلبہ و طالبات کو داخلے دیے گئے۔ اس طرح گذشتہ چار برسوں کے دوران مجموعی طور پر تینوں میڈیکل کالجز میں 600 طلبہ کو داخلے دیے گئے۔‘

پاکستان میڈیکل کمیشن نے تینوں نئے کالجز کی رجسٹریشن نومبر 2021 میں کی تھی تاہم طلبہ ان میں 2018 سے زیر تعلیم ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے بتایا کہ ’اب جب کچھ طالب علم میڈیکل کی پانچ میں سے تین سال کی تعلیم مکمل کر چکے ہیں اور چوتھا تعلیمی سال جاری ہے، تو پاکستان میڈیکل کمیشن نے نئے سرے سے تمام 600 طلبہ سے ٹیسٹ لینے کا حکم جاری کیا ہے اور کہا ہے کہ جو ٹیسٹ پاس نہ کر سکا وہ مزید تعلیم جاری نہیں رکھ سکتا۔
پاکستان میڈیکل کمیشن نے تینوں نئے کالجز کی رجسٹریشن نومبر 2021 میں کی تھی تاہم طلبہ ان میں 2018 سے زیر تعلیم ہیں۔
مصدق بلوچ کا کہنا ہے کہ ’اگر میڈیکل کالجز میں سہولیات پوری نہیں تھیں اور اس کی رجسٹریشن میں تاخیر کی گئی تو یہ طلبہ کی نہیں حکومت کی غلطی تھی۔ حکومت کی کمزوریوں کی سزا طلبہ کو نہ دی جائے۔‘

شیئر: