Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں ڈی این اے کے نمونے جرائم کی کھوج میں بے سود کیوں؟ 

ڈاکٹر اشرف کے مطابق اصل مسئلہ اس وقت ہوتا ہے جب سیمپلز اکٹھے کرنے میں تاخیر ہو (فائل فوٹو: ان سپلیش)
پاکستان میں بین الاقوامی معیار کی ڈی این اے ٹیسٹنگ کے لبے سرکاری اور پرائیویٹ لیبارٹریز موجود ہیں۔ جبکہ پاکستان کے شہر لاہور میں واقع پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری کو ملک کی جدید ترین لیب بھی کہا جا رہا ہے۔
سنگین جرائم جیسا کہ قتل اور ریپ کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ انتہائی اہمیت کا حامل ہو چکا ہے۔ حال ہی میں بڑے بڑے کیسز میں ڈی این اے شواہد سے ملزمان کے خلاف مقدمات چلائے گئے ہیں۔  
تاہم اب اس وقت ملک کی سب سے بڑی فرانزک لیب کو ایک مسئلہ درپیش ہے جس میں پولیس کی جانب سے بھیجے جانے والے ڈی این اے سیمپلز بے سود ثابت ہو رہے ہیں۔ پولیس کی ایک محکمانہ رپورٹ کے مطابق ’ریپ اور قتل کی وارداتوں میں 50 فیصد مقدمات میں ڈی این اے سیمپلز یا تو صحیح طرح سے اکھٹے نہیں کیے جاتے یا کسی اور وجہ سے ضائع ہو جاتے ہیں۔‘
رپورٹ میں صوبائی دارالحکومت لاہور کے ڈویژنز کا ایک مہینے کا ڈیٹا بھی دیا گیا ہے کہ کیسے صدر کینٹ کی حدود میں سے صرف 38 فیصد کیسز میں درست ڈی این اے سیمپل اکھٹے کیے گئے ہیں۔ جبکہ ماڈل ٹاؤن ڈویژن میں یہ شرح 29 فیصد رہی ہے۔ سول لائنز اور اقبال ٹاون ڈویژنز میں یہ سیمپل اس سے بھی کم شرح میں لیے گئے۔  
پنجاب فرانزک لیب کی جانب سے پولیس کو لکھے گئے ایک خط کے جواب میں رپورٹ تیار کی گئی ہے جس میں پولیس کی جانب سے فرانزک لیب کو موصول ہونے والے نمونہ جات کی کوالٹی پر سوال اٹھائے گئے ہیں۔  
اریبہ (فرضی نام) کی عمر 10 سال ہے اور ان کا تعلق پنجاب کے شہر راولپنڈی سے ہے۔ ان کو ایک قریبی رشتہ دار نے مبینہ طور پر ریپ کا نشانہ بنایا۔ واقعے کا مقدمہ تھانہ کلر سیداں میں درج کروایا گیا۔
اریبہ کی خالہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمیں جب پتا چلا کہ ہماری بیٹی کے ساتھ کیا ہوا ہے، اس نے خود ہی ہمیں بتایا، تو ہم نے فوری طور پر تھانے میں پرچہ درج کروایا۔ اس کے بعد پولیس نے کہا کہ ڈین این اے کے لیے نمونے چاہییں جو کہ لاہور بھیجے جائیں گے جس کے بعد کیس آگے بڑھے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ملزم نے عدالت سے عبوری ضمانت کروا لی جبکہ فرانزک لیب سے جو رپورٹ آئی اس میں کچھ میچ نہیں ہوا۔ اریبہ کی والدہ زیادہ غریب ہیں ہم نے کافی منع کیا لیکن انہوں نے ملزمان سے صلح کر لی وہ بھی رشتہ دار ہی ہیں۔‘  

کئی واقعات ہیں جن میں ڈی این اے رپورٹ متاثرین کے حق میں نہیں آتی (فائل فوٹو: ان سپلیش)

اس طرح کے کئی واقعات ہیں جن میں سنگین جرائم کے باوجود کسی بھی وجہ سے ڈی این اے رپورٹ متاثرین کے حق میں نہیں آتی۔
صوبائی دارالحکومت لاہور میں ایک مدرسے کے مفتی عزیزالرحمان پر ان کے شاگرد نے الزام نے عائد کیا تھا کہ ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے۔ انہوں نے واقعات کی خفیہ ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر جاری کر دیں۔ تاہم اس مقدمے میں بھی ڈی این اے رپورٹ بہرحال متاثرہ طالب کے حق میں نہیں آئی۔  
پنجاب فرانزک لیبارٹری کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اشرف طاہر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا  ’یہ بات درست ہے کہ ہمیں موصول ہونے والے نمونہ جات کی ایک بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے کہ وہ صرف خانہ پری ہی ہوتی ہے۔ اور اس کی کئی وجوہات ہیں۔  یہ سادہ مسئلہ نہیں ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ جو ہے وہ یہ ہے کہ نمونے تاخیر سے اکھٹے کیے جاتے ہیں۔‘  
انہوں نے بتایا کہ ’ریپ کے کیسز میں اگر 72 گھنٹے سے پہلے سیپمل اکھٹے نہ کیے جائیں تو ان کے قوی امکانات ہوتے ہیں کہ ان کا متاثرین کو زیادہ فائدہ نہ ہو۔‘ 
ڈاکٹر اشرف کے مطابق اصل مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب سیمپلز اکٹھے کرنے میں تاخیر ہو جاتی ہے۔
’یا تو متاثرہ فریق بہت تاخیر سے بتاتے ہیں یہ یا پولیس کی طرف سے میڈیکو لیگل ٹیم جائے وقوعہ پر اس وقت پہنچتی ہے جب ان سیمپلز کی اصل ہیئت برقرار نہیں رہتی۔ ہمارا کام یہ ہوتا ہے کہ ہم یہ جانچ کریں کہ ملزم اور متاثرہ فریق کے نمونے ملتے ہیں یا نہیں۔ ایسا نہیں کہ لیبارٹریوں میں کوئی مسئلہ ہے۔ یہ طریقہ کار ہے اس لیے ہم وقتاً فوقتاً محکموں کو لکھتے رہتے ہیں کہ وہ اپنے طریقہ کار کو درست رکھیں تاکہ کیسز میں زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔‘

شیئر: